اورنگ زیب عالم مصباحی(گڑھوا) (رکن مجلسِ علمائے جھارکھنڈ)
آج ہندوستان کا حال یہ ہو گیا ہے کہ انتخابات کہیں کے ہوں ہندوستانی باشندے بی جے پی کی ہار کے متمنی ہوتے ہیں مثلاً الیکشن دہلی میں ہوئی مگر سبھی ہندوستانیوں کی زبان پر ایک ہی جملہ ہے کہ کوئی بھی پارٹی جیت جائے مگر بی جے پی ہار جائے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ابھی تقریباً مہینوں دن قبل جھارکھنڈ ودھان سبھا چناؤ ہوا جس میں جھارکھنڈ کے باشندوں نے بی جے پی کو جھارکھنڈ سے چلتا کیا جبکہ اس سے پہلے بی جے پی کی ہی حکومت تھی اور اب گہری زخم سے اُبر بھی نہ پائے تھے کہ دہلی انتخابی نتائج میں بھی یکطرفہ طور پر بی جے پی کو شکت نصیب ہوئی اور دہلی کے باشندوں نے ان کے جھوٹے دعوؤں اور وعدوں کے ڈھول کا پول کھول کر ثابت کر دیا کہ واقعی عوام جگ چکی ہے۔آپ کو معلوم ہوگا کہ ابھی چند ماہ قبل مرکزی حکومت نے اپنی اپوزیشن پارٹیوں اور پورے ملک اور بیرون ملک کے عوام کی مخالفت کے باوجود اس نے شہریت ترمیمی بل کو پاس کیا جس میں مسلمانوں کو مستثنیٰ کرثابت کردیا کہ بی جے پی جمہوریت مخالف پارٹی اور ہندو راشٹر کی متمنی ہے۔
یہ بات ہندی باشندوں پہ مخفی نہیں کہ این آر سی، این پی آر اور سی اے اے سے فائدہ تو دور لاکھوں درجہ نقصان ہے۔جس کے برخلاف صرف دہلی کے باشندوں نے ہی نہیں بلکہ پورے ہندوستان کے عوام بغیر تفریق مذہب و ملت سڑکوں پر برسراحتجاج بنی ہوئی ہے اور اس طرح کے جمہوریت مخالف کالا قانون کو مسترد کر رہی ہے۔ لیکن بی جے پی لیڈروں کو دیکھ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ مرکزی حکومت بہرا سانپ ہے جو کسی کی کچھ سنتا نہیں بلکہ صرف زہر اگلنے اور ڈسنے سے مطلب رکھتا ہے۔ لیکن ہندوستانی عوام سانپ کا سر کچلنا بھی جانتی ہے جیسا کہ ابھی دہلی کی عوام نے بی جے پی کو چلتا کر ظلم کے خلاف اتحاد کی مثال قائم کیا۔پچھلے تین چار مہینوں سے ہندوستانی عوام مسلسل احتجاج پہ احتجاج اور دھرنے پہ دھرنے دئیے جا رہی ہے پر بی جے پی غرور و گھمنڈ میں چور ہے اور پورا ملک کو جلتا دیکھ اور عوام کی چیخ و پکار کو نظر انداز کر مرکزی حکومت کا ان پر ظلم وتشدد جاری ہے اور آر ایس ایس کے ایجنڈے پولیس نہ صرف طلبہ وطالبات اور عوام ہند پہ حملے کررہے بلکہ ان کی عزت بھی پامال کر رہی ہے ان پر آر ایس ایس کے آتنکیوں کے ذریعے لگاتار گولیاں بھی چلوا رہی ہے اور آتنکی گولیاں چلا کر پولیس کے دامن میں چھپ رہا ہے مگر ان یونیورسٹیوں کے طلباء وطالبات اور شاھین باغ کے شاہینوں کو سلام جو ایک قدم پیچھے ہٹے بغیر اپنی قدم آزادی کی جانب گامزن کیے ہوئے ہیں۔ یاد رکھیے!
یہ دہلی ہے اندھ بھگت نگر نہیں ہے یہاں جس طرح زبان سے جنگ آزادی لڑی جاتی ہے اسی طرح عمل سے بھی جنگ آزادی لڑی جاتی ہیں اور دہلی کی تاریخ رہی ہے کہ وہاں کے لوگ وقت آنے پر سینے پہ گولیاں کھانے سے بھی پیچھے نہیں ہٹتے۔اور یہ بھی خوبصورت منظر دیکھا کہ اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کرتے ہوئے مغروروں کے تختے بھی پلٹ دیئے۔ پر کسی کو کیا معلوم کہ جسے ہم مسیحا سمجھ رہے ہیں وہ ہی آستین کا سانپ نکلے گا اور بی جے پی جیسی خطرناک پارٹی جو کہ لاکھوں معصوموں کی جان و مال کو ضائع کر چکا ہے اور ہمیشہ کرنے کے درپے رہتا ہے اس سے مل کر کروڑوں شائقین کے دلوں کو چکنا چور کر دیا۔امید کرتے ہیں کہ اب دہلی ہی نہیں بلکہ پورا ہندوستان جاگ چکا ہے آپ دیکھیں گے کہ جہاں کہیں انتخابات ہوں وہاں سے بی جے پی کو اکھاڑ پھینکیں ورنہ سب کو معلوم ہے کہ بی جے پی کو اقتدار میں لانا ہندوستان کے لیے کرونا وائرس سے زیادہ خطرناک ہے۔دہلی اور جھارکھنڈ سے دوسرے صوبوں خاص طور سے بہار کو سبق لینا چاہیے کہ جرمنی کی ترقی ہٹلر کے مرنے کے بعد ہوئی اور ہندوستان میں ترقی اور خوشحالی بی جے پی کا تختہ پلٹنے سے ہی ہوگی۔ ورنہ وہ دن دور نہیں جب سب کے لبوں پر یہ جملہ ہو "نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں