تازہ ترین

جمعرات، 13 فروری، 2020

آمریت کے خلاف سرفروشان حریت پر پولیس کی بربریت

شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی
اقتدار کے ایوانوں سے انسانیت جب رخصت ہوجائے، تو چنگیزیت جنم لیتی ہے'، حکومتوں کی نیتوں میں فتور آتا ہے' تو آمریت پیدا ہوتی ہے'، فرمانروائی کی عمارتیں جب تعصب کے ستونوں پر قائم ہوتی ہیں'تو  سفاکیت رونما ہوتی ہے، نفرتوں کے شعلے اٹھتے ہیں، انصاف رواداری کا خون ہوتا ہے، ظلم وجبر اور شر وفساد کا دور دورہ ہوتا ہے، یہاں تک کہ حیوانیت اور درندگی پورے معاشرے پر پورے ملک پر مسلط ہوجاتی ہےملک عزیز بھارت اس وقت اسی متعصبانہ عہد۔اور فرقہ وارانہ دور سے گذر رہا ہے، حکومت کے متعصبانہ، اور نسل پرستانہ نظریات اور فرقہ وارانہ کرداروں کی وجہ سے رواداری پر مبنی اس کی روایات بالکل مجروح ہوچکی ہیں، اس کی جمہوریت اقتدار کے غرور کے نتیجے میں داغ داغ ہوچکی ہے'، اس کی معیشت حاکم وقت کے نسل پرستانہ نظریات پر قربان ہوچکی ہے'، معاشی ادارے ،تعلیمی دانشگاہوں،لمیٹیڈ کمپنیوں اور فیکٹریوں کے دروبام چرمرا کر رہ گئے ہیں'،حکومت کے غیر انسانی،غیر قانونی، اور انتہا پسندانہ قانون کے خلاف پورے ملک میں عوام سراپا احتجاج ہے'،مگر بجائے اس کے کہ یہ ان آوازوں پر کان دھرتی، ۔مفاہمت کی راہ اختیار کرتی، ملک کی اضطرابی فضا کو دور کرنے کے لئے کوئی قدم اٹھاتی، اقتدار کے نشے میں چور۔اس نے ظلم وجبر کی تاریخ رقم کرنی شروع کردی۔

 اور جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے طلباء وطالبات کو ظلم وبربریت کا نشانہ بنایا، اس ظلم کے خلاف پورا ملک چیخ اٹھا، پوری دنیا نے مذمت کی، ملک ،  حکومت، نظام، عدلیہ کی سارے عالم میں رسوائی ہوئی، دہلی میں تو سفاکیت اور بربریت کا کھیل رک گیا مگر مرکزی حکومت ہی کے خطوط پر چلنے والی یوپی حکومت میں انسانیت اور جمہوریت کے قتل وخون کا سلسلہ پوری بے شرمی سے جاری رہا۔۔آج جب جامعہ ملیہ کے طلباء دیگر مظاہرین کے ساتھ جامعہ نگر سے پارلیمنٹ تک پرامن طریقے پر مارچ کیا تو اچانک پولیس فورس ان پر ٹوٹ پڑی اور اس طرح بے رحمی سے ان پر حملے کئے، ان پر تشدد کیا، مخصوص اعضاء کو نشانہ بنایا گیا، ان پر کیمکل استعمال کرکے انہیں معذور کرنے کی مکمل کوشش کی گئی، اور اس طرح ان کا خون بہایا گیا،کہ انگریزوں کی سفاکیت بھی ان مظالم کے آگے بے وقعت ہوگئی، اقتدار کے ہاتھوں انصاف ودیانت بیچ کر ضمیر کی تجارت کرنے والی گودی میڈیا نے حسب معمول اپنا سیاہ کردار نبھایا اور پروپیگنڈوں کے ذریعے یہ باور کرانے میں پوری قوت سے مشغول ہوگئی کہ یہ احتجاج پر امن نہیں تھا یہ مارچ متشددانہ تھا پولیس کا حملہ اور لاٹھی چارج رد عمل اور مڈبھیڑ کے نتیجے میں جوابی کارروائی تھی،میڈیا جب زر خرید ہوجائے، افکار جب بک جائیں، سچائیاں جب پیسوں کے عوض فروخت کردی جائیں، صحافت کے فرائض جب حکومتی ایوانوں کے غلام بن جائیں تو ایسی صورت ان سے سچائی کی توقع حماقت اور بے جا خوش فہمی ہی کہی جاسکتی ہے۔

سو جمہوریت کے چوتھے ستون کہے جانے والے میڈیا سے ویسے بھی صداقت کی امید نہیں تھی کہ اب یہ آمریت کا پہلا ستون ہے'، موجودہ اقتدار کے تمام حرکت وعمل  کے جواز کی راہیں ہموار کرنا اور ظلم وسفاکیت اور وحشت وبربریت کے گھناؤنے کرداروں کو جائز عمل کا سرٹیفکیٹ فراہم کرنا ہی اب اس کا نصب العین اور فرض منصبی ہے'،کہتے ہیں جب ظالم کی نیت بگڑتی ہے تو اس وقت دلیلیں بے کار اور ثبوتوں وشہادتوں کے تمام دفاتر بے اثر ہوجاتے ہیں، کسے نہیں معلوم کہ جمہوری حکومت میں۔ جمہوری آئین میں،سیکولر ملک میں پروٹیسٹ عوام کا آئینی حق ہے'، کون نہیں جانتا کہ یہ ملک جمہوری قانون حکمرانی پر کھڑا ہے'، یہاں پر امن احتجاج ہر شہری کا حق ہے' لیکن اس قدر موٹی بات ،بنیادی قانون اور اساسی حق شہریت کے باوجود ان مظاہروں پر اقتدار پابندی لگا رہا ہے' ،طاقت کے زور پر اسے ختم کررہا ہے'، آج کے پولیس ایکشن نے ثابت کردیا کہ اب تک جو دلی پولیس کی طرف سے ظلم کا سلسلہ رکا ہوا تھا اس کی وجہ عوام کے حقوق جمہوریت کا لحاظ نہیں تھا، حق شہریت کا پاس نہیں تھا، طالبات وخواتین کے ساتھ رحم وعزت کا معاملہ نہیں تھا، 
لاکھوں مظاہرین سے متعلق حکومت کی کوئی ہمدردی نہیں تھی بلکہ یہ اس کی مجبوری تھی کہ اگر وہ طاقت کا استعمال کرے گی تو دارالحکومت دہلی کے حالیہ الیکشن میں اسے ناکامیوں کا منھ دیکھنا پڑے گا جس طرح ابھی جھارکھنڈ کا تلخ تجربہ سامنے آیا ہے'یہاں بھی وہی معاملہ ہوجائے گا، لیکن اب جبکہ فاشسٹ نظریات کو عوام نے دھتکار دیا ہے ،فرقہ وارانہ نظریات کی شکست یقینی ہوچکی ہے'تو اس انتہا پسند اقتدار نے اپنے اصلی وحشیانہ رویہ کا مظاہرہ کیا ہے، بے دریغ ان بے قصور طلباء پر اور طالبات پر لاٹھیاں چلائیں ہیں،ان نہتے مظاہرین کے اجسام پر کیمکل سے حملے کرکے انہیں مفلوج کیا گیا ہے، ان مظلوموں میں بچے بھی ہیں بچیاں بھی۔

 جنھوں نے گاندھی نظریہ کی حمایت میں قدم بڑھائے تھے، جن کے ہاتھوں میں ملک کا ترنگا لہرا رہا تھا، جنھوں نے آئین کے تحفظ کے نعرے لگائے تھے، جنھوں نے ملک کی سالمیت کی بات کی تھی، آئین پر گفتگو کی تھی ، ایک سیکولر ریاست میں سیکولر ازم کا مسئلہ چھیڑا تھا، دستور کی حفاظت کی بات کی تھی۔سؤال یہ ہے'کہ کیا ان کا عمل ملک کے دستور کے خلاف تھا،کیا ان کا مارچ ان کا مظاہرہ، عوام کا احتجاج دستور کے خلاف ہے'، کیا عوام کو ظالمانہ قوانین کے خلاف آواز بلند کرنے کا حق نہیں ہے'، اگر ہے'اور دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک میں ہر لحاظ سے ہے'تو حکومت کی طرف سے بزور قوت ان آوازوں کو بلند کرنے کی آمرانہ کوششیں کیوں؟ جنگی ہتھیاروں سے لیس فورس کے ذریعے اپنی ہی عوام پر ستم رانیاں کیوں؟  ان کے خلاف ظلم وجبر کی داستان کیوں رقم کی جارہی ہے'،  ان سوالوں کے جوابات حاکمان وقت کے پاس نہ کل تھا اور نہ آج ہے' ، مگر یہ بھی دنیا کی ریت ہے'کہ جب ظالم کی نیت بگڑتی ہے' تو آئین ودستور اور عدالت و جمہوریت کے تمام دفعات بے کار ثابت ہوجاتے ہیں اس وقت صورت حال ملک کی اسی طرح کی ہے'، اقتدار نے اپنے فاشزم اور آمرانہ عمل سے ملک کے جمہوری قوانین کو ریجیکٹ کیا ہے'، نہتے شہریوں پر دومہینے سے ظلم وسفاکیت کی تاریخ رقم کرکے ، ملک کے آئین میں ترمیم کرکے ،اس کے سیکولر ازم پر شب خون مار کر، عوام کے حقوق کو سلب کرکے، صحافت کے مقدس شعبے کو خرید کر جھوٹ وفریب کو رائج کرکے، عدالت اور جمہوریت کا گلا گھونٹ کر، بھی وہ ملک سے وفادار، دیش بھکت، اور لوک تنتر کے حامل ہیں۔

دوسری طرف بے سروسامانی کی حالت میں وہ اقلیت ہے' جو دو مہینے سے اپنے وجود کی بقا کے لئے سڑکوں پر کھڑی ہے، جو کھلے آسمان کے نیچے اپنی تجارت، اپنے کارخانوں، معاشی کاموں،ملازمتوں کو ترک کرکے اپنی اس شہریت اوراس وطن کی حفاظت کے لئے سر دھڑ کی بازی لگائی ہوئی ہے جس کی تعمیر وتزئین کے لئے اس قوم کے جیالوں نے، اس کے حکمرانوں نے، ہزاروں سال صرف کردئیے،جس کی آزادی کے لئے باپ نے اپنے بے شمار لخت ہائے جگر کو، ان گنت ماؤں نے اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک کو، ہزاروں دوشیزاؤں نے اپنے سہاگ کو، ضعیفوں نے اپنی آخری امیدوں آرز ؤں کو قربان کرڈالا تھا '، نوجوانان قوم کے ساتھ ضعیف خواتین کی وہ جماعت ہے'جس نے جمہوریت کا نعرہ لگایا ہے'، سیکولر ازم کی حفاظت کی قسمیں کھائی ہے، ملک کے آئین کے تحفظ کا عہد کیا ہے', فرقہ وارانہ نظام کی مخالفت کی ہے'، حکومت کے نسل پرستانہ اور ظالمانہ قانون جو مذہب کی بنیاد پر لاکر ایک مخصوص مائنارٹی کو شہریت سے محروم کرنے کے لئے لایا گیا ہے اس کے خلاف آواز بلند کی ہے'، انھوں نے نہ پتھر بازی کی نہ کوئی دوسری چیز ہاتھوں میں اٹھائی، نہ تلواروں کے خود کو مسلح کیا نہ ہی ترشول استعمال کئے، جہاں بھی وہ نکلے، جہاں بھی آوازیں بلند کیں پر امن طریقے سے اور بالکل خالی ہاتھ کیں، باوجود اس کے وہ دیش دروہی ہو گئے ، متعصب اقتدار نے خود کو اس قدر بلند تصور کر لیا ہے' گویا روئے زمین کی پوری خدائی اسی کے ہاتھوں میں ہے۔

ہمدرد یونیورسٹی کے سامنے بھی طلباء وطالبات کا احتجاج جاریِ تھا مگر یہاں تعداد کم تھی تو تقریباً دو سو پولیس کی موجودگی میں اسی قدر فرقہ پرست جنونی ہجوم بھی حملے کے لئے پر تول رہا تھا، بالآخر اس احتجاج کو اس لیے ختم کرایا گیا کہ کسی وقت بھی ان پر پولیس کے ساتھ ساتھ سنگھی ٹولے کا حملہ ہوسکتا تھا، حکومت کے ظالمانہ نظام  کے ساتھ وہ لوگ بھی ہیں جن کے اذہان میں نفرتوں کی آگ بھر دی گئی ہے'، جنہیں انسانیت کے نام پر جنونیت کا سبق میڈیا کے ذریعے پڑھا دیا گیا ہے'وہ بھی ہیں پیسوں نے جنہیں خرید لیا ہے'، پورا ملک عصبیت،نفرت ، فرقہ پرستی اور انتہا پسندی کی چتا پر جل رہا ہے'، مٹھی بھر برہمن کی حکومت سازی،ان کی شہنشاہیت کے لئے ملک کی اقدار وروایات اور جمہوریت وانسانیت کو تار تار کردیا گیا ہے'،موجودہ ترمیمی قانون جس طرح مسلمانوں کے لیے خطرناک ہے اسی طرح ہندوؤں میں پسماندہ کاسٹ اور دلتوں کے بھی نقصان دہ ہے' ،ایک بار این آر، سی، کے ذریعے شہریت منسوخ ہوئی تو اگرچہ ی سی،اے اے کے راستے سے انہیں شہرت مل جائے گی مگر انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ اس کی حیثیت خیرات سے زیادہ نہیں ہوگی، پھر پوری کی پوری غلامانہ زندگی اور ہزار سال پہلے پتھروں کے دور میں ان جو حالت تھی شہریت حاصل ہونے کے بعد کی پوزیشن اس سے مختلف نہیں ہوگی،لیکن قیامت یہ ہے'کہ اب تک نہ ان کے رہنماؤں کو یہ بات سمجھ میں آرہی ہے'اور نہ ہی ان کے عام افراد اس سلسلے میں کچھ غور کرنے کی ہمت کرپا رہے ہیں۔

لیکن تمام حقائق کے باوجود انقلاب کی منزل دور نہیں ہے' حکومتوں کے مظالم انقلابی تحریک میں مزید قوت پیدا کر جاتے ہیں، باطل ہوائیں طمطراق سے آتی ضرور ہیں مگر استقامت ،استقلال اور دوام،حق کی روشنی ہی کا مقدر ہے'، ایک مخصوص اقلیت کو شہریت سے محروم کرنے کی سازش اور اس منصوبے کو طاقت کے ذریعہ نافذ کرنے والوں کو یہ بات بھولنی نہیں چاہیے کہ جس مٹی میں انسانوں کا خون جذب ہو جاتا ہے وہ اس کا وطن بن جاتی ہے'، یہاں کی سرزمین کا گوشہ گوشہ اور چپہ مسلمانوں کے خون کا امین ہے'،  اس لیے سیٹیزن شپ سے قوم مسلم کو دور کرنے والا منصوبہ کامیاب نہیں ہوسکتا ہے، اس قوم نے ڈھائی سو سال تک انگریزی استعماریت سے ملک کی حفاظت کے لئے قربانیاں پیش کی ہے'۔قربانیوں کا ایک سلسلہ اور سہی۔۔۔۔ ظلم کی رات طویل ہے' ،قربانیوں آزمائشوں،اور مصائب وآلام، کی تاریکیاں دبیز ہوتی جارہی جا رہی ہیں ،مگر انہیں تاریکیوں کا سینہ چیر کر انصاف وعدالت کا سورج طلوع ہوگا۔
اگر عثمانیوں پر کوہ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے'سحر پیدا

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad