ہمایوں اقبال ندوی ارریہ
شہریتی ترمیمی قانون کےبعدملک کی تاریخ میں پہلی باراتنی تعدادمیں خواتین سڑکوں پرنکلی ہیں ۔مرکزی حکومت کویہ محسوس کرنے میں بڑی بھول ہورہی ہے ۔مختلف ریاستوں میں پےدرپےشکست کے بعدملک کی راجدھانی دہلی اسمبلی میں بھی اسےشرمناک ہار کا سامنا ہوا ہے ۔عام آدمی کی زبان سےنکلی ہوئی آوازکونقارہ خداکہاگیاہے۔اسی لئے اس تحریرکاعنوان بھی ایک عامیانہ ساجملہ ہےجوبےساختہ ایک بندہ خداکی زبان سےاداہوا ہے۔کہ" اب اس پارٹی کولٹ گھٹی لگ گئ ہے۔کوئی بھی ایجنڈااسے بچانہیں سکتاہے"۔یہ سب کاوکاس کرنےکی بات کہتی رہی ہے۔اورعمل اس کے برخلاف کرتی رہی ہے۔ملک اب بٹنے والانہیں ہے ۔بٹوارے والی سیاست یہاں چلنے والی نہیں ہے۔نہ جانےکتنےلوگ اپنے حق کی خاطرپرامن احتجاج کرتےہوئےزنداں چلے گئے ۔کتنوں کی جانیں چلی گئیں ۔معصوم بچوں اوربچیوں نےاپنی ماؤں کی گودکوچھوڑدیاہے،اوررحم لانےکےلئےفلک کی طرف پروازکناں ہیں ۔
ع آہ جاتی ہے فلک پہ رحم لانے کے لئے"ادلو! ہٹ جاؤ! دیدو راہ جانے کے لئے ان معصوموں کی آہوں نےاپنی ماوں کیلئے اوراپنےملک کیلئےرحم لانےمیں کامیابی ہی نہیں بڑی جلدی دکھادی ہےاورگنتی الٹی شروع ہوگئی ہے ۔خواتین کےساتھ انصاف کی بات کرنےوالی یہ پارٹی اپنےایجنڈےسےواپس ہوچکی ہے۔ان کےلئےنازیباالفاظ استعمال کرتی ہے۔انہیں کرنٹ پہچانےکی بات کرتی ہے۔اپنے ملک کی ان خواتین کوغیرملکی قراردیتی ہے۔ایساکرنےاورکہنےپرپورےملک کی خواتین میں غم وغصہ پیداہوگیاہے۔اب ان پراعتماد کےلئے کوئ جگہ نہیں بچی ہے ۔انسان تھک ہار کر گھر پہونچتا ہے اور وہاں سے حوصلہ پاتا ہے ۔ایک ایسا قانون یہ حکومت لے آئی ہے ۔جو گھروں کے سکون کو غارت کررہی ہے ۔یوپی کے وزیر اعلی کہتے ہیں مرد سکون سے رضائ اوڑھے سورہے ہیں ۔یہ حملہ اب انہیں بےچین کردینےکےلئےکافی ہے۔اتنی بےاعتمادی کی فضاملک میں پہلی بارکسی حکومت کے لئے بنی ہے ۔ماوں بہنوں کی بدولت پوری انسانی برادری وجود رکھتی ہے ۔ملک انہی سے بنتا ہے،ان سے بے وفائی وبے اعتنائی کرنا،ان کی خیریت بھی دریافت نہ کرنا، ان کی بات تک نہ سننا، الٹے ان کا مذاق اڑانا، ہتک عزت کرنا، ان کے درپے ہوجانا، یہ خودکونقصان میں ڈالنااور اپنے آپ کوبےوقوف بناناہی نہیں بلکہ اپنےوجودپرہی سوالیہ نشان لگانےجیسا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس شکست پر عام آدمی کا یہی تبصرہ ہے "لٹ گھٹی اب لگ چکی ہے ۔یہ تھمنے اور رکنے والی نہیں ہے۔
اب ہر آدمی جو اس ملک کا رہنے والا ہے، ہندو ہے یا مسلمان ہے ،پہلے تو وہ ایک انسان ہے ۔وہ سوچنے لگا ہے اور شرمندہ بھی ہونے لگا ہے کہ ملک کاموجودہ وزیراعظم جو سب کے وشواش کی بات کرتے ہیں وہ کیوں لوگوں کو صرف کپڑوں سے پہچاننے میں لگےہیں ۔کیا سب کا وشواش اسی کا نام ہے ۔ملک کا موجودہ وزیر داخلہ جو پورے ملک کے ہیں ، وہ صرف ایک پارٹی کے نہیں ہیں ، وہ کیوں اپنی ماں بہنوں کو کرنٹ ڈالنے کی بات کرتے ہیں ۔یہ اس ملک کے لئے بڑی شرم کی بات ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہر شہری یہاں کا اب اپنے کئے پر نادم اور پشیمان ہے ۔عوام نےجس حکومت کووجودبخشی ہے،وہی اب ان کی شہریت پر سوال کھڑی کر نے میں لگی ہے۔ یہ ایساایجنڈہ ہے جسے مذہبی رنگ میں رنگنا ہی مشکل ہے ۔شہریت کا مسئلہ ہندومسلمان کاایجنڈا اس ملک میں کبھی نہیں بننے والاہے۔اس لئےکہ شہریت کامعاملہ ہرشہری سے جڑاہے۔اس پرزورلگانااپنےسائےکےپیچھےبھاگناہے۔یہ حکومت کی طرف سےفالتوکی ایک کو شش ہے جس میں کامیابی نہیں رکھی گئی ہے ۔ہاں البتہ اتنا ضرورواضح ہوگیا ہے کہ یہ اپنےناپاک عزائم میں کس درجہ گرسکتی ہےاورکس حدتک جاسکتی ہے۔یہ عوام الناس کی بڑی حصولیابی ہے۔اب یہاں کاکوئ شہری دھوکےاورشوشےمیں آنےوالانہیں ہے۔اس سوچ کا کھل کر اور کھول کر اعلان ہو گیاکہ جس کی یہاں کوئی ضرورت نہیں ہےاوراس سوچ کےلئے اس ملک میں کوئی جگہ بھی نہیں ہے ۔، یہ کسی نے نہیں سوچا تھا کہ اتنی جلدی اس کا زوال شروع ہوجائے گا ۔مگر یہ سب رنگ اور کپڑوں کو مذہب میں بانٹنے کے ساتھ ساتھ ان مظلوموں کی آہوں کا بھی نتیجہ ہے ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں