تازہ ترین

اتوار، 2 فروری، 2020

خاموشیوں کا ذکر

از: محمد جسیم الدین حُسامی ارریہ

 گذشتہ کافی دنوں سے سی اے اے این پی آر اور این آر سی کے خلاف ملک گیر مظاہروں اور احتجاجوں کا سلسلہ جاری و ساری ہے روز بروز احتجاج کے  عمل میں شدت آتی جارہی ہے ہر شخص جابر وظالم حکمراں کے خلاف بلاتفریق مذاہب وملت ملک میں بسنے والے لوگ ملک کی آئینی حقوق ، سیکولرزم  اور جمہوریت کے عظیم  ڈھانچے کو  بچانے کے لئے سڑکوں پر ظالم و جابر حکمراں متعصب پولیس والوں کی گولیوں کا شکار ہورہے ہیں ملک کی سالمیت معاشرتی خوشحالی سماجی ہم آہنگی کو بر قرار رکھنے کے لئے ملک کے طول وعرض میں اس سیاہ ایکٹ کی ہر زاویے سے مذمت کی جارہی ہے کالجوں یونیورسیٹیوں اور مدرسوں میں پڑھنے والے طلبا ملک کی دستور کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے والوں کو سبق سکھانے کے لئے سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں خاص کر جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڈھ مسلم یونیورسٹی میں پڑھنے والے جانبازوں نے فسطائی اور فاشزم طاقتوں کے خلاف جس طرح سے انقلابی تحریک کی شروعات کی ہے یقینا ایسے محرک ، بے باک اور بے لاگ اجیالوں کو زمانہ صدیوں یاد رکھے گا غرض کے ہر طرف اس متنازع بل کے خلاف غم و غصہ کا ماحول بنا ہوا ہے لیکن بے حس ، بے مروت حکمراں کے ذہن و دماغ میں  ہٹلر وادی سوچ اسطرح گھر کر گئی ہے کہ اس سیاہ اور متنازع بل کو اپنی کامیابی سے جوڑ کر دیکھ رہی ہے لیکن ہم مسلمانوں کو خدا وحدہ لا شریک لہ کی ذات پر کامل یقین ہے وہ ہمیں بے یارو مددگار نہیں چھوڑے گا اور کفر و ظلم کے علم برداروں تکبر و نخوت کے پرستاروں کا  مکر و فریب مٹی میں مل کے رہے گا لیکن ان سب کے بیچ جمیعتہ علماء ہند جیسی سیکڑوں اور ہزاروں ملی و سماجی تنظیمں جو ملک میں صدیوں سے مسلماموں کےحقوق اور انکی بازیابی کے لئے صدائے احتجاج بلند کرنے کا دعوی کرتی رہی ہے آج کہاں ہیں؟  ہندوستان میں مسلمانوں کو کیوں لگ رہا ہے کہ ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔جس قوم کے پاس اسوہ رسول اکرم ﷺ موجود ہوں خلافت راشدہ کے تمام پہلو جس قوم کے بچے بچے کو منھ زبانی یاد ہوں اس قوم کیلئے جمہوری انداز میں قیادت کرنے کو کیاستر بھتر سال کافی نہیں ہے؟یقیناََ ان تنطیموں کا اس سیاہ بل کی مخالفت میں بڑے پیمانے پر کوئی لائحہ عمل تیار نہ کرنا اور عوام الناس کی اواز سے ناآشنائی دام مصلحت کی دبیز چادر میں  لپٹی انکی خاموشی امت مسلمہ کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے آخر اس پر فتن اور جاں گداز ماحول میں کس سے اپنی بی چارگی اور بے بسی کا دکھرا سنانے کی جسارت کرے۔ہر طرف مسلمان لاچاری اور بے بسی کی عالم میں اپنے حقوق کے لئے سڑکوں پر سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں ایسا لگتا ہے کہ  مسلمانوں کو اس آزاد ملک میں مسلم ہونے کی قیمت خوب ادا کرنی پڑ رہی ہے۔کیا اب بھی ملی اور سماجی تنظیموں کی خاموشیوں کا ذکر خاموشی سےنہیں کیا جانا چائیے۔ آخر کیوں ہمارے ملی رہنما اتنے خاموش ہیں پورا ملک آج موجودہ حکومت کی غلط پالیسیوں سے پریشان ہے لیکن ہمارے دانشوران ہائی ٹیک  اے سی آفسوں میں ملک کی بد ترین صورت حال پر تماشائی بنے ہوئے ہیں آج ضرورت ہے ایسی ملی تنظیموں کے ذمہ داروں کو آواز دینے کی اور یہ کہنے کی کہ آپ کی خاموشی ہمیں احساس کمتری کے اس دلدل میں لے جا رہی جہاں سے نکلنا کبھی کبھی ممکن ہی نہیں ناممکن بھی ہوجاتا ہے۔یہ چند سطور صدائے احتجاج ہے ان تمام تنظیموں کے ذمہ داروں کے خلاف جو صرف اخباری بیان بازی سے اپنا احساس ذمہ داری نبھانا چاہتے ہیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad