جامعہ احتجاج کو پچاس روز مکمل، فائرنگ میں زخمی طالب علم ڈسچارج، بھگوادہشت گرد کو نابالغ بتا کر بچانے کی کوشش، پھول مالا سے خیرمقدم کیاجائے گا: کانگریس کا طنز
نئی دہلی۔۳۱؍جنوری: جامعہ ملیہ اسلامیہ علاقے میں جمعرات کو جامعہ کوآرڈینیشن کمیٹی کے ذریعہ منعقدہ راج گھاٹ مارچ کے دوران فائرنگ کرنے والے ہندو تو دہشت گرد رام بھکت گوپال شرما کو دہلی پولس کرائم برانچ نےجوینائل جسٹس بورڈ کے سامنے جمعہ کو پیش کیا۔ معاملے کی سماعت کے بعد بورڈ نے اسے ۱۴ دنوں کی حفاظتی تحویل میں بھیج دیا ہے، ساتھ ہی کرائم برانچ نے اس کی عمر کا پتہ لگانے کےلیےآر ایم ایل اسپتال میں درخواست بھیجی ہے اس کے بعد میڈیکل بورڈ بنے گا، اگر جے جے بی بورڈ اجازت دےگی تو نابالغ کا ٹسیٹ ہوگا اور پھر اس کا بون اوسیفکیشن ٹسیٹ ہوگا۔ حملہ آور تم بودھ نگر (اترپردیش) کے جیور علاقے کا رہنے والا ہے۔۱۲ویں جماعت کا طالب علم ہے۔ جوینائل جسٹس بورڈ نے اسے امتحان کےلیے کتابیں مہیا کرانے کا حکم دیا ہے، حملہ آور سے ٹیوشن کےلیے بھی پوچھا گیا ہے، لیکن اس کا کوئی جواب نہیں آیا، تحقیق میں پتہ چلا ہے کہ ۱۰ ہزار روپئے میں گائوں کے ایک شخص سے کٹا خریدا تھا۔ ذرائع کے مطابق حملہ آور چندن گپتا، کملیش تیواری کے قتل سے تکلیف میں تھا۔اطلاعات کے مطابق جامعہ فائرنگ میں زخمی ہوئے شاداب فاروق کو اسپتال سے چھٹی مل گئی ہے، لیکن اس واقعہ سے لوگ اب تک حیران ہیں کہ پولس کی موجودگی میں آخر یہ سب کچھ کیسے ہو گیا۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے چیف پراکٹر نے اس سلسلے میں اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے واقعہ کا ذمہ دار مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر اور بی جے پی لیڈر کپل مشرا کو ٹھہرایا ہے جنھوں نے انتخابی تشہیر کے دوران زہر آلود بیان دیے تھے۔ جامعہ کی وائس چانسلر نجمہ اختر بھی اس پورے واقعہ سے مایوس ہیں اور دہلی پولس پر کئی سوال بھی کھڑی کرتی ہوئی نظر آ رہی ہیں۔جامعہ چیف پراکٹر وسیم احمد خان نے واقعہ کے بعد میڈیا کے سامنے اپنی بات رکھتے ہوئے کہا کہ ’’طلبا راج گھاٹ تک مارچ کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ہم انھیں سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے۔ طلبا کا یہ مارچ پوری طرح ایک پرامن احتجاج تھا۔ پھر اس آدمی (گوپال شرما) نے گولی کیوں چلائی؟‘‘ وہ آگے کہتے ہیں کہ ’’یہ واقعہ انوراگ ٹھاکر اور کپل مشرا کے اشتعال انگیز بیانات کی وجہ سے پیش آیا ہے۔ انھوں نے لوگوں کو مشتعل کیا۔ ہم اس واقعہ سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ پولس اور حکومت کو ان کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے۔‘‘دوسری طرف وائس چانسلر نجمہ اختر نے ایک ویڈیو پیغام میں اپنی مایوسی اور ناراضگی ظاہر کی ہے۔ انھوں نے سوال کیا ہے کہ پولس نے وقت رہتے بندوق لیے شخص کو کیوں نہیں پکڑا۔ وہ ویڈیو میں کہتی ہوئی نظر آ رہی ہیں کہ ’’بندوق لیے شخص سے 30 میٹر کی دوری پر تقریباً دو درجن پولس اہلکار کھڑے تھے، مارچ کو لے کر 300 پولس اہلکار اور سی آر پی ایف کی پانچ کمپنیاں علاقے میں تعینات تھیں۔ پھر یہ سب کیسے ہوا۔‘‘اپنے ویڈیو میں وائس چانسلر نے طلبا کے صبر و تحمل کی تعریف بھی کی۔ انھوں نے کہا کہ چیزیں ہاتھ سے نکل سکتی ہیں جس کی طرف دھیان دیا جانا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ ’’ہمیں اس واقعہ سے بڑا جھٹکا لگا ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا کہ کوئی شخص پولس کے سامنے پستول لہرائے اور کوئی اسے روک نہ سکے۔ پھر وہ کسی کو گولی مارتا ہے اور بہت ہی سہل انداز میں پکڑا جاتا ہے۔ یہ واقعہ ہمارے بھروسے کو توڑ رہا ہے۔‘‘ وہ مزید کہتی ہیں کہ ’’مجھے امید ہے کہ ایسا واقعہ دوبارہ نہیں ہوگا۔ ہمیں ایک یقین دہانی کی ضرورت ہے کہ یہ پھر سے نہیں ہوگا۔‘‘ آج جامعہ ملیہ کوآرڈی نیشن کمیٹی نے شام سات بجے جامعہ کیمپش میں پریس کانفرنس کا انعقاد کیا اور کل ہوئے دہشت گردانہ حملے پر پولس کی خاموشی پر سوال اُٹھائے اور آنکھوں دیکھی رپورٹ پیش کی۔ جامعہ کورڈی آرڈینشن کمیٹی نے پریس کانفرنس میں کہا کہ ہم زخمی شاداب کو اسپتال لے جاناچاہ رہے تھے لیکن ہمیں جانے نہیں دیاگیا، پریس کانفرنس میں کہا گیا کہ بی جے پی لیڈر انوراگ ٹھاکر ، پرویش ورما، کپل مشرا وغیرہ کی اشتعال انگیز نعرے بازی سے متاثر ہوکر گوپال نامی ہندو دہشت گرد نے جامعہ کے طالب علم پر حملہ کیا اور پرامن مارچ کو پرتشدد بنانے کی کوشش کی جو ناکام رہی۔پریس کانفرنس میں کہاگیا کہ جو طاقتیں اس حملے کے پیچھے ہیں ان کی گرفتاری عمل میں لائی جائے اور ہمارے تحفظ کو یقینی بنایاجائے۔ واضح رہے کہ آج جامعہ تحریک کو ۵۰ دن مکمل ہوگئے ہیں آج بھی بڑی تعداد میں طلبا اور عوام جامعہ گیٹ نمبر سات پر جمع ہوئے او رکل کے واقعے کی مذمت کی اور سی اے اے کی و اپسی تک اپنی تحریک جاری رکھنے کے عزم کو دہرایا۔ اس سے قبل جامعہ الومنائی ایسوسی ایشن، کوآرڈینیشن کمیٹی اور جے این یو کی طلبہ تنظیم جے این یو ایس یو نے بی جے پی لیڈر انوراگ ٹھاکر کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی ہے۔ اطلاعات کے مطابق جواہر لعل نہرو یونیورسٹی طلبہ تنظیم جے این یو ایس یو کے کونسلر وشنو پرساد نے انوراگ ٹھاکر کے خلاف سنسد مارگ پولس تھانے میں شکایت درج کرائی ہے، شری نواس ٹھاکر کانگریس یوتھ اکائی کے صدر نے بھی اشتعال انگیز نعرے لگانے کو لے کر شکایت درج کرائی ہے، بھارتیہ یوا کانگریس کی جانب سے جاری بیان کے مطابق شری نواس نے ٹھاکر کے بیان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے اور الزام لگایا ہے کہ ٹھاکر کے بیان کا نتیجہ ہے کہ ایک نوجوان جامعہ ملیہ اسلامیہ میں مظاہرین پر گولی باری کرتا ہے۔ وہیں اے آئی سی سی (آل انڈیا کانگریس کمیٹی) کے قومی سکریٹری دھیرج گوجرنے جمعہ کی صبح ٹویٹ کرکے بی جے پی کودہشت گردتنظیم قرار دیا ہے۔دھیرج نے ٹویٹ میں لکھا کہ اب اس گولی چلانے والے ،دہشت گرد تنظیم بی جے پی کے بھگوا دہشت گرد، جامعہ میں فائرنگ کرنے والے کو دہلی پولیس نابالغ ٹھہرانے کے بعد ذہنی طورپرمتاثر بتائے گی اور پھر چائیلڈہوم میں بھیج دے گی۔ اوروہی ہوابھی ،اسے چائیلڈہوم بھیج دیاگیاہے اورگودی میڈیاکونابالغ بتانے کے لیے لگادیاگیاہے ۔انھوں نے کہاہے کہ پھر وہاں سے وہ کچھ دنوں میں دہشت گردنکلے گا اور اس کا خیر مقدم پھول مالاؤں سے کیا جائے گا! ملک بدل چکاہے!۔بتا دیں کہ دھیرج اے آئی سی سی کے نیشنل سکریٹری ہونے کے ساتھ ساتھ اترپردیش کے لیے انچارج بھی ہیں۔اس کے علاوہ وہ راجستھان کے جے پورسے 2013-2018 میں ممبر اسمبلی اور راجستھان این ایس یو آئی کے اسٹیٹ صدر بھی رہ چکے ہیں۔ اس سے پہلے دھیرج گوجر تب بحث میں آئے تھے۔جب وہ پرینکا گاندھی کے ساتھ اسکوٹی پرسوار سابق آئی پی ایس ایس آر-داراپوری کے اہل خانہ سے ملنے گئے تھے۔ ہیلمیٹ نہیں لگانے کی وجہ ان کاچالان کٹ گیاتھا۔واضح رہے کہ انوراگ ٹھاکر نے دہلی کے ریٹھالا میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہرہ کررہے لوگوں پر نشانہ سادھتے ہوئے کہا تھا کہ ’دیش کے غداروں کو۔۔۔جس کے جواب میں بھیڑ نے کہا تھا ’’گولی مارو سا۔۔۔۔کو‘‘۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں