بھاجپا اور آر ایس ایس ، اس جیسی ذہنیت رکھنے والوں کا ہم ہندی مسلمانوں کو تہ دل سے شکریہ ادا کرنا چاہئیے۔
دراصل جتنے بھی ہندوستانی مسلمان بادشاہ یا پھر آزادی کے متوالے گزرے ہیں،انکو ہم مسلمانوں کو جاننے کی کبھی فرصت ہی نہیں ہوتی،وہ توبھلا ہو ایک خاص ذہنیت رکھنے والی میڈیا کااوران کٹر ہندو ذہنیت والے سیاسی و غیر سیاسی پارٹیوں کا،جنہوں نے ہمیں ہمارے آبا و اجداد کو گاہے بگاہے یاد دلادیتےرہتے ہیں۔اسی بہانے ہم کو انکی تاریخ پڑھنے کا موقع مل جاتاہے۔ دراصل آج کل ٹیپو سلطان شہید (رح) کے بارے میں پورےملک میں بحث چھڑی ہوئی ہے۔ آئیے ہم لوگ بھی جانتے ہیں،کہ ٹیپو سلطان شہید کون تھے؟ٹیپو سلطان کا پورا نام فتح علی ٹیپو تھا۔ آپ ہندوستان میں بنگلورکےایک ضلع دیوانہالی ، میں 20 نومبر، 1750ء(بمطابق جمعہ 20 ذوالحجہ، 1163ھ ) میں حیدر علی کے گھر پیدا ہوئے۔ ٹیپو سلطان کا نام آرکاٹ کے بزرگ ٹیپو مستان اولیا کے نام پر ہے۔ ٹیپو کو اپنے دادا فتح محمد نام کی مناسبت سے فتح علی بھی کہا جاتا تھا۔ حیدر علی نے ٹیپو سلطان کی تعلیم پر خاص توجہ دی اور فوج اور سیاسی امور میں اسے نوعمری میں ہی شامل کیا۔ 17 سال کی عمر میں ٹیپو سلطان کو اہم سفارتی اور فوجی امور پر آزادانہ اختیار دے دیا۔ ٹیپو سلطان اپنے والد کی طرح جنوبی بھارت میں سب طاقتور حکمران کے طور پر جانے جاتے ہیں۔' آپ کے والد سلطان حیدر علی نے جنوبی ہند میں 50 سال تک انگریزوں کو بزورِ طاقت روکے رکھا اور کئی بار انگریزافواج کو شکست فاش بھی دی۔اور ٹیپو بھی کئی لڑائیوں میں انگریزوں کو شکست فاش دی،ٹیپو سلطان کا ہی وہ قول ہے جسے آج بھی ہندوستانی لوگ بڑے فخریہ انداز میں کہتے ،شیر کی ایک دن کی زندگی ،گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔آپ نے برطانوی سامراج کے خلاف ایک مضبوط مزاحمت فراہم کی اور برصغیر کے لوگوں کو غیر ملکی تسلط سے آزاد کرنے کے لیے سنجیدہ و عملی اقدامات کئے۔ سلطان نے انتہائی دوررس اثرات کی حامل فوجی اصلاحات نافذ کیں، صنعت و تجارت کو فروغ دیا اور انتظامیہ کو ازسرنو منظم کیا۔ سلطان کو اس بات سے اتفاق تھا کہ برصغیر کے لوگوں کا پہلا مسئلہ برطانوی اخراج ہے۔ نظام اور مرہٹوں نے ٹیپو کی طاقت کو اپنی بقا کےلیے خطرہ سمجھا اور انگریزوں سے اتحاد کرلیا۔ٹیپو سلطان نے ترکی، ایران، افغانستان اور فرانس سے مدد حاصل کرنے کی کوششیں کیں مگر کامیاب نہ ہوسکے۔ میسور کی آخری جنگ کے دوران جب سرنگاپٹم کی شکست یقینی ہوچکی تھی ٹیپو نے محاصرہ کرنے والے انگریزوں کے خلاف بھرپور مزاحمت کی اور قلعے کو بند کروادیا لیکن غدار ساتھیوں نے دشمن کے لیے قلعے کا دروازہ کھول دیا اور قلعے کے میدان میں زبردست جنگ چھڑ گئی۔بارُود کے ذخیرے میں آگ لگ جانے کے باعث مزاحمت کمزور ہوگئی اس موقع پر فرانسیسی افسر نے ٹیپو کو چترادرگا بھاگ جانے اور اپنی جان بچانے کا مشورہ دیا مگر ٹیپو راضی نہ ہوئے،ٹیپو سلطان کی زندگی ایک سچے مسلمان کی زندگی تھی مذہبی تعصب سے پاک تھی یہی وجہ تھی کہ غیر مسلم ان کی فوج اور ریاست میں اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے۔ ٹیپو سلطان نے اپنی مملکت کو مملکت خداداد کا نام دیا ۔حکمران ہونے کے باوجود خود کو عام آدمی سمجھتے ۔باوضو رہنا اور تلاوتِ قرآن آپ کے معمولات میں سے تھا ۔ ظاہری نمودونمائش سے اجتناب برتتے ۔ ہر شاہی فرمان کا آغاز بسم اللہ الرحمن الرحیم سے کیا کرتے تھے۔ زمین پر کھدر بچھا کر سویا کرتے تھے۔ٹیپو سلطان ہفت زبان حکمران کہے جاتے ہیں۔ آپ کو عربی، فارسی، اردو، فرانسیسی، انگریزی سمیت کئی زبانوں پر دسترس حاصل تھی۔ آپ مطالعے کے بہت شوقین تھے اور ذاتی کتب خانے کے مالک تھے جس میں کتابوں کی تعداد کم و بیش 2000 ہزار بیان کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ آپ سائنسی علوم میں خاصی دلچسپی رکھتے تھے۔ آپ کو برصغیر میں راکٹ سازی کا موجد کہا جاتا ہے۔
میر نظام علی خان کے نام صلح کا ایک خط!
میر نظام علی خان کا داماد نواب مہا بت جنگ کا دیوان اسد علی خان صلح کا پیغام لے کر ٹیپو سلطان کے پاس پہنچتا ہے تو ٹیپو سلطان اس کی واپسی پر اپنے ایلچی محمد غیاث کو نظام الملک کے نام ایک خط لکھ کر روانہ کرتے ہیں۔
148 جناب عالی!آداب میں ٹیپو سلطان بن حیدر علی خان بہادر آپ کو یہ بتا دینا بہتر اور ضروری سمجھتا ہوں کہ میں ملک کا ایک ادنیٰ خادم ہوں اور اپنے ملک کو اپنی ماں کا درجہ دیتا ہوں، اور میری فوج اور علاقے کے ہر محبِ وطن کو وطن پر قربان کر کے بھی اگر ملک اور قوم کو بچا سکا تو یہ میری خوش نصیبی ہو گی۔اصل بات تو یہ ہے کہ میرے ملک میں رہنے والے ہر فرد کو ملک کا خادم ہونا چاہیے، لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ مرہٹوں کے ساتھ مل کر اپنے ہی ملک کے باشندوں کو تباہ کرنے، ملک کو کھوکھلا کرنے اور اس کی معاشی اور ثقافتی حالات کو تباہ و تاراج کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔معلوم ہو کہ آپ دونوں کی ملی بھگت کی وجہ سے میرا ملک اور وطن پامال اور میری رعایا کو شکستہ حال کیا جا رہا ہے۔ میں نے آپ کو رازداری میں یہ بھی سمجھا یا تھا کہ اگر آپ اور میں دونوں مل کر ہم خیال بن جاتے ہیں تو مرہٹوں کی کیا مجال کہ وہ ہماری ریاستوں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھ سکیں۔یہ بھی ایک حقیقت ہی ہے کہ اپنی عیاری اور چالاکی کی وجہ سے انگریز آپ کو مجھ سے ملنے نہیں دیتے اور آپ کے دل میں کدورت بھرتے آ رہے ہیں۔ اور تعجب ہے کہ آپ اس بات کوسمجھ نہیں رہے ہیں۔وہ آپ کو اکسا رہے ہیں کہ آپ مرہٹوں کے ساتھ مل کر میرے خلاف فوج کشی کرتے رہیں۔اگر بات آپ کو سمجھ میں آ جا تی ہے تو میں یہ مشورہ دوں گا کہ آپ کی اور میری دوستی امن اور آشتی میں بدل سکتی ہے تو اس ایک بات پر کہ آپ کے خاندان کے لڑکے، بھتیجے، بیٹوں کومیرے خاندان کی لڑکیوں کے ساتھ اور میرے بھتیجے، بیٹوں کو آپ کے خاندان کی لڑکیوں کے ساتھ بیاہا جائے تاکہ دونوں ریاستوں میں دوستی بڑھ جائے۔ فقط ۔ ٹیپو سلطان۔
ٹیپو ایک بادشاہ ہی نہیں بلکہ ایک عظیم سپہ سالاربھی تھے!
ہر جنگ میں اپنی افواج کے شانہ بشانہ رہنے والے ٹیپو سلطان اپنے زمانے کے تمام فنون سپہ گری سے واقف تھے۔ اپنی افواج کو پیادہ فوج کے بجائے سواروں اور توپ خانے کی شکل میں زیادہ منظّم کیا ۔ اسلحہ سازی، فوجی نظم و نسق اور فوجی اصلاحات میں تاریخ ساز کام کیا۔میسور کی چوتھی جنگ جو سرنگاپٹم میں لڑی گئی جس میں سلطان نے کئی روز قلعہ بند ہوکر مقابلہ کیا مگر سلطان کی فوج کے دو غداروں میر صادق اور پورنیا نے اندورن خانہ انگریزوں سے ساز باز کرلی تھی۔ میر صادق نے انگریزوں کو سرنگاپٹم کے قلعے کا نقشہ فراہم کیا اور پورنیا اپنے دستوں کو تنخواہ دینے کے بہانے پیچھے لے گيا۔ شیر میسور کہلانے والے ٹیپو سلطان نے داد شجاعت دیتے ہوئے کئی انگریزوں کو جہنم واصل کیا اورانگریزوں سےبہادری سے مقابلہ کرتے ہوئے،4 مئی، 1799ء میں سرنگاپٹم کے قلعے کے دروازے پرشہید کردئیےگئے۔اور یہیں سے ہندوستان کا سورج غروب ہوگیا۔جسے انگریز افسروں نے خود یہ باتیں کہی اور لکھی ہیں کہ آج ہم پورے ملک پر قابض ہوگئے۔
آئیے اب جانتے ہیں کچھ آر ایس ایس اور بھاجپا کے بارے میں
آر ایس ایس کا پورا نام راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ ہے۔
اسکی بنیاد انگریزوں کے دور حکومت میں ہی،1925ء کو ناگپور میں رکھی گئی تھی،اس تنظیم کا بانی کیشوا بلی رام ہیڑگیوار تھا،
اسکے کارنامے کیا ہیں؟
بھارت میں دنگے فسادات برپا کرنے میں اس تنظیم کا نام سر فہرست ہے۔ 1927 ء کا ناگپور فساد ان میں اہم رول ہے۔ 1948 ء کو اس تنظیم کے ایک رکن ناتھورام ونائک گوڑسے نے مہاتما گاندھی کو قتل کر دیا۔ 1969ء کو احمد آباد فساد ، 1971 ء کو تلشیری فساد اور 1979 ء کو بہار کے جمشید پور فرقہ وارانہ فساد میں ملوث رہی۔ ۶ دسمبر 1992ء کو اس تنظیم کے اراکین (کارسیوک) نے بابری مسجد میں گھس کر اس کو منہدم کر دیا۔
آر ایس ایس کو مختلف فرقہ وارانہ فسادات میں ملوث ہونے پر تحقیقی کمیشن کی جانب سے سرزنش کا سامنا کرنا پڑا ، وہ درج ذیل ہیں
ء1969ء کے احمدآباد فساد پر جگموہن رپورٹ
ء1970 ء کے بھیونڈی فساد پر ڈی پی ماڈن رپورٹ
ء1971 ء کے تلشیری فساد پر وتایاتیل رپورٹ
ء1979ء کے جمشیدپور فساد پر جتیندر نارائن رپورٹ
ء1982 ء کے کنیاکماری فساد پر وینوگوپال رپورٹ
ء1989 ء کے بھاگلپور فساد کی رپورٹ
آر ایس ایس کی کتنی تنظیمیں ہیں۔
سنگھ پریوار : یعنی سنگھ کا خاندان۔ اس خاندان یعنی پریوار کے اراکین تنظیمیں۔ آر ایس ایس کے آدرشوں کے مطابق سرگرم تنظیموں کو عام طور پر سنگھ پریوار کہتے ہیں۔
آر ایس ایس کی دوسری ہم خیال تنظیموں میں
وشوا ہندو پریشد
بھارتیہ جنتا پارٹی - سنگھ پریوار کی سیاسی تنظیم
ون بندھو پریشد ،
راشٹریہ سیوکا سمیتی ،
سیوا بھارتی ،
اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد - سنگھ پریوار کا اسٹوڈینٹس ونگ
ونواسی کلیان آشرم ،
بھارتیہ مزدور سنگھ ،
ودیا بھارتی وغیرہ شامل ہیں۔
ملک مخالف سرگرمیوں میں کن کن مقامات پر ملوث ہیں،
مالیگاؤ بم دھماکا
حیدرآباد مکہ مسجد بم دھماکا
اجمیر بم دھماکا
سمجھوتہ ایکسپریس بم دھماکا
ہندوستان میں آزادی سے پہلے ایک بار اور آزادی کے بعد تین بار آر ایس ایس پر پابندیاں عائد کی گئیں۔
آئیے اب دیکھتے ہیں بی جے پی کا وجود کیسے اور کیوں ہوا؟
بھارتیہ جنتا پارٹی، آر ایس ایس (راشٹریہ سویم سیوک سنگھ) کی سیاسی بازو جن سنگھ کی موجودہ شکل ہے۔ 1977ء میں جن سنگھ کی حمایت سے جنتا پارٹی زیرِ اقتدار آئی۔ 1980ء میں اٹل بہاری واجپائی، لال کرشن اڈوانی اور بھیرو سنگھ شیکھاوت نے مل کر بھارتیہ جنتا پارٹی کو تشکیل دی۔ اس کا پہلا صدر اٹل بہاری واجپائی رہے۔
آر ایس ایس اور وشوا ہندو پریشد کے ساتھ بی جے پی نے بھی رام جنم بھومی تنازعہ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ، اور بابری مسجد منہدم کر کے مندر کی تعمیر کی مانگ کی۔ 6 دسمبر1992 میں بی جے پی -آر ایس ایس - وشوا ہندو کے کارکنوں نے بابری مسجد کو منہدم کیا۔ اس کے بعد ملک کے مختلف حصّوں میں فرقہ وارانہ فسادات واقع ہوئے اور ایک ہزار سے زائد لوگ مارے گئے۔
1996ء میں انتخابات کے بعد بی جے پی کو 161 نشستیں ملیں ، اور گٹھ جوڑ کے توسّط سے 13 دن تک واجپائی نے وزیرِ اعظم کا عہدہ سنبھالا۔ لیکن اکثریت ثابت نہ کر سکے تو استعفا دینا پڑا۔ 1998ء کے انتخابات میں بی جے بی کا محاذ 182 نشستیں حاصل کر کے واجپائی دوبارہ 160وزیرِ اعظم کےعہدے پر فائز ہوئے۔ لیکن جیا للیتا کی قیادت والی جماعت نے انحراف کی تو حکومت گر گئی۔
اور پھر اسکے بعد سے کئی سالوں تک اپوزیشن جماعت بنی رہی، بالآخر 2014کے انتخابات میں مودی وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہوئے، بی جے پی حکومت میں آنے کے بعد سے اقلیتوں خاص کر ہریجن،(چمار) اور مسلمانوں کو ٹارگٹ بناکر اذیتیں دی جارہی ہیں۔
نوٹ،یہ تھی مختصراً جوکہ ویکیپیڈیا کی مدد سے تاریخ بتائی گئی ہے۔
اب آپ دونوں کو کمپیر کریں کو کون دیش بھگت تھا اور کون دیش دروہی؟

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں