روزہ اور حمل: خطرات، فوائد اور طبی و فقہی غور و فکر
نازش احتشام اعظمی
تعارف :روزہ ایک عظیم روحانی تجربہ ہے جو مختلف مذاہب اور ثقافتوں میں بطور عبادت اور روحانی تطہیر کے لیے اختیار کیا جاتا ہے۔ اسلامی تعلیمات میں روزہ نہ صرف تزکیہ نفس اور قربِ الٰہی کا ذریعہ ہے بلکہ جسمانی نظم و ضبط اور صحت کے لیے بھی مفید سمجھا جاتا ہے۔
لیکن انسانی زندگی کے کچھ مراحل ایسے ہیں جہاں روزے کے اثرات یکساں نہیں ہوتے، اور ان میں حمل ایک نہایت نازک اور حساس مرحلہ ہے۔ حاملہ خواتین کے لیے روزہ رکھنا نہ صرف ایک دینی معاملہ ہے بلکہ طبی، جسمانی اور نفسیاتی پہلوؤں سے بھی گہری تحقیق اور تدبر کا متقاضی ہے۔
*حمل اور روزے سے متعلق فقہی اور ثقافتی نقطہ نظر*
اسلام ایک ایسا دین ہے جو عبادات میں آسانی اور انسانی حالات کی رعایت کو ملحوظ رکھتا ہے۔ قرآن کریم میں مریضوں، مسافروں اور کمزور طبقات کو روزے میں رعایت دینے کا واضح ذکر ہے:
> "پس تم میں سے جو کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرے، اور جو لوگ (روزہ رکھنے کی) طاقت نہ رکھتے ہوں وہ فدیہ دیں، ایک مسکین کو کھانا کھلانا" (البقرہ: 184)
فقہاء کی رائے میں، اگر حاملہ عورت کو خدشہ ہو کہ روزہ اس کی یا اس کے بچے کی صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے تو وہ روزہ مؤخر کر سکتی ہے اور بعد میں قضا یا فدیہ کے ذریعے اس کی تلافی کر سکتی ہے۔
مختلف اسلامی ممالک میں حاملہ خواتین کے روزے سے متعلق متنوع روایات پائی جاتی ہیں۔ کچھ معاشروں میں خواتین دورانِ حمل پورے رمضان کے روزے رکھتی ہیں، جبکہ کچھ ثقافتوں میں حاملہ عورتوں کو مکمل استثنا دیا جاتا ہے۔
*حمل کے دوران غذائی ضروریات اور روزے کا اثر*
حمل کے دوران عورت کے جسم میں کئی گہرے تغیرات رونما ہوتے ہیں، جن میں سے سب سے اہم غذائی ضروریات کا بڑھ جانا ہے۔
پروٹین، وٹامنز اور معدنیات کی بڑھتی ہوئی ضرورت: جنین کی نشوونما کے لیے حاملہ عورت کو زیادہ مقدار میں آئرن، کیلشیم، فولک ایسڈ اور دیگر ضروری غذائی اجزاء درکار ہوتے ہیں۔
پانی کی اہمیت: حمل کے دوران جسم میں پانی کی طلب بڑھ جاتی ہے تاکہ خون کی مقدار میں اضافہ، بچے کی حفاظت کے لیے ایمنیوٹک فلوئیڈ (Amniotic Fluid) کا توازن اور جسمانی افعال درست رہیں۔
بلڈ شوگر لیول میں اتار چڑھاؤ: حمل کے دوران انسولین کے افعال میں تبدیلی آتی ہے، اور اگر روزے کے دوران مناسب مقدار میں غذا نہ ملے تو بلڈ شوگر کی سطح خطرناک حد تک گر سکتی ہے۔
روزے کے دوران جسمانی و طبی ردِعمل
حمل کے مختلف مراحل میں روزہ رکھنے کے اثرات مختلف ہو سکتے ہیں:
1. پہلی سہ ماہی (First Trimester): یہ وہ وقت ہوتا ہے جب بچے کی بنیادی جسمانی ساخت تشکیل پا رہی ہوتی ہے۔ اگر حاملہ عورت کو پہلے ہی متلی، قے اور بھوک نہ لگنے کی شکایت ہو تو روزہ رکھنا اس کی توانائی کو مزید کم کر سکتا ہے۔
2. دوسری سہ ماہی (Second Trimester): اس مرحلے میں حاملہ خواتین اکثر زیادہ توانائی محسوس کرتی ہیں، لیکن روزے کے سبب غذائی اجزاء کی کمی ماں اور بچے کی نشوونما پر اثر ڈال سکتی ہے۔
3. تیسری سہ ماہی (Third Trimester): بچے کی نشوونما مکمل ہونے کے قریب ہوتی ہے، اور ماں کے جسم کو زیادہ کیلوریز اور پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ طویل روزے کے سبب پانی کی کمی (Dehydration) یا بلڈ شوگر لیول میں کمی جنین کے لیے خطرناک ہو سکتی ہے۔
*جدید طبی تحقیق اور حمل کے دوران روزے کے اثرات*جدید طبی مطالعات میں حمل کے دوران روزے کے اثرات پر مختلف نتائج سامنے آئے ہیں:
کچھ تحقیقات میں پایا گیا کہ اگر حاملہ عورت متوازن غذا لے، سحر و افطار میں مناسب مقدار میں پانی اور ضروری غذائی اجزاء حاصل کرے، تو روزہ رکھنے سے کوئی شدید منفی اثر نہیں ہوتا۔
البتہ دیگر مطالعات میں ظاہر ہوا کہ طویل دورانیے کے روزے سے بچے کا وزن کم ہو سکتا ہے، خاص طور پر اگر عورت کی عمومی غذائیت پہلے ہی کمزور ہو۔
اگر حاملہ عورت کو پہلے سے ہی ہائی بلڈ پریشر، ذیابیطس یا خون کی کمی ہو، تو روزہ رکھنے سے یہ مسائل بڑھ سکتے ہیں۔
*حمل میں روزے کے چیلنجز اور ممکنہ خطرات*
1. پانی کی کمی (Dehydration): روزے کے دوران پانی کی کمی سے پیشاب کی نالی کی انفیکشن، قبض اور تھکن جیسی شکایات بڑھ سکتی ہیں۔
2. بلڈ شوگر لیول میں کمی: روزے کے دوران بلڈ شوگر کم ہونے سے کمزوری، چکر آنا اور بے ہوشی کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔
3. کم پیدائشی وزن (Low Birth Weight): تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ اگر حاملہ عورت روزے کے دوران مناسب غذا نہ لے تو بچے کی نشوونما متاثر ہو سکتی ہے۔
4. قبل از وقت پیدائش (Preterm Birth): اگر روزے کے دوران ماں کو شدید کمزوری محسوس ہو یا پانی کی کمی ہو جائے، تو قبل از وقت زچگی کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔
*یونانی طب کے اصول اور حمل میں روزہ*
یونانی طب انسانی جسم کے مزاج (Mizaj) پر بہت زور دیتی ہے، اور ہر فرد کی جسمانی کیفیت کو مدنظر رکھتے ہوئے طبی مشورہ دیا جاتا ہے۔ یونانی اصولوں کے مطابق:
حاملہ خواتین کو ایسی غذا استعمال کرنی چاہیے جو ان کے بلغمی، صفراوی، سوداوی یا دموی مزاج کے مطابق ہو۔
غذا-دوائی (Ghiza-e-Dawai) کا اصول اپنایا جائے، یعنی ایسی غذائیں لی جائیں جو دوا کا کام بھی دیں، جیسے کھجور، شہد اور دودھ۔
اگر عورت کا مزاج پہلے ہی کمزور ہو یا اس کا جسمانی مدافعتی نظام ناتواں ہو، تو اسے روزہ نہ رکھنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔
نتیجہ: حاملہ خواتین کے لیے سفارشات
اگر حاملہ عورت روزہ رکھنا چاہتی ہے تو اسے پہلے اپنے ڈاکٹر سے مکمل معائنہ کروانا چاہیے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ روزہ اس کی صحت کے لیے محفوظ ہے یا نہیں۔
سحر اور افطار میں متوازن غذا کھائی جائے، اور پانی کی مناسب مقدار لی جائے تاکہ دن بھر توانائی برقرار رہے۔
اگر روزے کے دوران کمزوری، چکر، پیٹ میں شدید درد یا بچے کی حرکت میں کمی محسوس ہو تو فوراً روزہ توڑ دینا چاہیے اور طبی ماہر سے رجوع کرنا چاہیے۔
اگر ڈاکٹر روزہ رکھنے سے منع کرے تو اسلامی تعلیمات کے مطابق قضا یا فدیہ ادا کرنے کی اجازت موجود ہے۔
حتمی کلمات
اسلامی تعلیمات میں انسان کی جسمانی صحت کو اولین ترجیح دی گئی ہے۔ روزہ ایک عظیم عبادت ہے، لیکن حمل ایک ایسا وقت ہے جہاں عورت کی اور اس کے بچے کی صحت کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔
لہٰذا، ہر حاملہ عورت کو چاہیے کہ وہ اپنے جسم کی ضروریات اور طبی ماہرین کی آراء کے مطابق فیصلہ کرے، اور اگر روزہ رکھے تو مکمل احتیاطی تدابیر کو اپنائے تاکہ اس کی عبادت بھی محفوظ رہے اور اس کا جسم بھی سلامت رہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں