ایک عائشہ نے خود کشی کی ہے؛ ہزاروں عائشاؤں کی فکر کیجیے: مولانا الیاس مخلص
کشن گنج مارچ (نامہ نگار) جمعیۃ علماء ضلع کشن گنج کے صدر اور مخلص ایجوکیشنل ٹرسٹ کے صدر مولانا الیاس مخلص نے جامع مسجد چھترگاچھ میں خطاب کرتے ہوئے جہیز کی برائی پر زور دیتے ہوئے عوام کو جہیز کی لعنت سے بچنے کی نصیحت کی۔ انہوں نے کہا کہ آج کے دور میں شادی گویا ایک مشکل ترین مسئلہ بن گیا ہے، زنا آسان ہے اور نکاح کو ہمارے سماج نے مشکل بنا دیا ہے، نکاح میں در آئی برائیوں میں ایک اہم برائی ’’جہیز اور تلک‘‘ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم پہلے غیروں کو مطعون کیا کرتے تھے کہ غیروں میں تلک اور جہیز کا رواج پایا جاتا ہے اور جہیز کے نہ ملنے سے ان کی بچیاں جلادی جاتی ہیں؛ لیکن افسوس کہ اب مسلمانوں میں جہیز کی لعنت گھر گھر میں اپنا قبضہ جما چکی ہے، ہر گھر جہیز کے ساز و سامان سے بھرا ہوا ہے، ہر غریب کی بچی جہیز کا انتظام نہ ہونے کی وجہ سے بنا شادی کے بیٹھی ہے، ہر عورت اپنی بہو سے دنیا بھر کا جہیز لینے کو تیار بیٹھی ہے، آخر کس منھ سے جہیز مانگا جاتا ہے؟ کیا یہ مسلمانوں کی روش ہے؟ ہر گز نہیں! اسلام نے شادی اور نکاح کو بالکل آسان بنایا ہے، ہم نے اس میں اپنی خواہشات اور لالچ کو داخل کرکے اسے اپنے سماج کے لیے مشکل ترین امر بنا دیا، ایک آدمی اپنی یا اپنی بچی کی شادی میں پوری زندگی کی جمع پونجی ختم کردیتا ہے؛ بلکہ اکثر مقروض ہوکر اپنی بچیوں کی شادی کراتا ہے۔ مولانا نے کہا کہ جس عائشہ نے لقمۂ دریا بن کر خود کشی کرلی ؛کیا وہ اسی مسلم معاشرے کی بیٹی نہیں تھی؟ کیا یہی ایک مسلم بچی کی زندگی کا اختتام ہونا چاہیے تھا؟ آخر کب یہ غیور قوم اپنی آنکھیں کھولے گی؟ آخر کب ہمارے نوجوانوں کو عقل آئے گی؟ آخر کب ہمارے علماء اس جہیز کی لعنت کو دور کرنے کے لیے سر جوڑ کر بیٹھیں گے؟ مولانا مخلص نے کہا کہ معاشرے کو جہیز کی لعنت سے نکالنے کے لیے علمائے کرام کو آگے آنے کی ضرورت ہے ۔ ابھی ایک عائشہ نے خود کشی کی ہے ، ہزاروں عائشاؤں کی فکر کون کرے گا۔

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں