تازہ ترین

ہفتہ، 29 فروری، 2020

جاويد احمد غامدى صاحب سے ايك ملاقات

بسم اللّه الرحمن الرحيم
از: ڈاكٹر محمد اكرم ندوى آكسفورڈ
 آج (بروز پنجشنبہ4 رجب سنہ 1441ه)  مشہور متكلم جناب جاويد احمد غامدى صاحب سے جنوبى لندن ميں ملاقات ہوئى، قرآن كريم كے پيغام كے مبلغ برادر محترم  استاذنعمان على خان اور متعدد اہل علم وفكرنے اس سے پہلے كئى بار ہمارى  ميٹنگ كى تحريك كى، ليكن ميرى مشغوليت كى بنا پر ايسا نہ ہو سكا، گزشتہ ہفتہ  ميرے ايك شاگرد جناب عمر جاويد صاحب جو غامدى صاحب كے معتقدين ميں ہيں انہوں نے مجهے فون كيا، اور خواہش ظاہر كى كہ غامدى صاحب سے ملوں، كچہ دشوارى گوارا كركے آج كى ميٹنگ طے ہوئى۔

 گرچہ ميرے بعض ساتهى اس ملاقات سے خوش نہيں ہيں، تاہم ميرا خيال ہے كہ ہميں با ہمى اتحاد اور قربت كى ہر ممكنہ كوشش كرنى چاہئے، ايك دوسرے كے موقف كو براه راست سمجهنا چاہئے، اور اگر اتفاق نہ ہو سكے تب بهى مخالفت  اور فتوى بازى سے بچنا چاہئے،  كيونكہ ايك دوسرے كى تكفير وتفسيق گناه كبيره ہے اور بد ترين جرم ۔

 كيمبرج سے  ہمارے كالج كى مجلس شورى كے چيرمين جناب جاويد احمد صاحب كى معيت ميں شام كے چہہ  بجے ايك كار پر نكلا، راستہ ميں كچه كام كرتا رہا اور ہم لوگ تقريبا آٹه بجے اس مكان پر پہنچے جہاں ميٹنگ طے تهى، مكان كے مالك نے ہمارا استقبال كيا، اور وه  ميرے  شاگرد نكلے، يہاں ميرے كئى ايك شاگرد موجود تهے،  جناب غامدى صاحب سے معانقه ہوا، ہمارى ايك دوسرے سے شناسائى تقريبا بيس سال پرانى ہے، اس كا سہرا پاكستان كے مشہور عالم ومفكر مولانا زاهد الراشدى صاحب  كے سر جاتا ہے، مولانا كا ذكر خير ہوا اور ہم سب نے مولانا كى مفكرانه صلاحيتوں، محاسن اخلاق اور بلندى كردار كى تعريف كى، مولانا كے صاحبزاده مولانا عمار صاحب كا ذكر خيرا ہوا جنہوں نے ابهى پى ايچ ڈى مكمل كى ہے، ميں ان كا ممتحن تها، درميان ميں برادر مكرم  نعمان على خان صاحب كا ذكر بار بار آتا رہا ۔

 نو بجے كے قريب غامدى صاحب كے ساته ہم لوگوں نے  كهانا تناول كيا، ہم لوگ آہسته آہسته كهانا كهاتے رہے اور مختلف موضوعات پر گفتگو كرتے رہے، غامدى صاحب نے اپنے استاد مولانا امين احسن اصلاحى صاحب كے متعدد قصے سنائے، ان كى  شخصيت كے مختلف علمى وانسانى پہلوؤں پر روشنى ڈالى، اس كا ذكر آيا كه مولانا محمد منظور نعمانى رحمة الله عليه تفسير تدبر قرآن كے بڑے مداح تهے، اور مولانا سے اس كى جلد از جلد تكميل كا مطالبه كرتے، اور تفسير كى طباعت كے بعدمولانا نعمانى نے اس كے متعلق  ايك مبارك خواب ديكها تها   اور مولانا اصلاحى سے اس خواب كا تذكره بهى كيا تها، مولانا نعمانى جب پاكستان تشريف لے جاتے تو مولانا اصلاحى كے يہاں قيام كرتے، ايك بار مولانا اصلاحى نے فرمايا كه ميرى اہليه آپ كى كتابيں پڑهتى ہين نه كه ميرى، اس پر مولانا منظور نعمانى صاحب نے فرمايا كه اس كى وجه يه ہے كه آپ ہمارے لئے لكهتے ہيں اور ميں ان كے لئے ۔

 كهانے كے بعد كى نشست ميں غامدى صاحب كے معتقدين كى بڑى تعداد تهى، مختلف امور پر تبادلۂ خيال ہوا، غامدى صاحب نے  حاضرين كے سوالوں كے جوابات ديئے، كہيں كہيں ميں نے بهى بعض علمى اور فقہى باتوں كى توضيح ميں حصه ليا، غامدى صاحب كا لہجه پر سكون تها، انہوں نے سلف صالحين اور علمائے كرام كا احترام ملحوظ ركهنے كى كوشش كى، كسى مناسبت سے مولانا تهانوى رحمة الله عليه كا ذكر آيا، حاضرين نے ان كى عظمت كا اعتراف كيا، علامه شبلى نعمانى اور مولانا فراہى كى تكفير كے متعلق مولانا تهانوى كے فتوى پر گفتگو ہوئى، اس فتوى سے رجوع كرنے كے لئے مولانا حسين احمد مدنى، علامه سيد سليمان ندوى اور مولانا عبد الماجد دريابادى رحمة الله عليہم كى كوششوں كو سراہا گيا، چهوٹى ذات كے مسلمانوں كى مولانا تهانوى كے يہاں جو تحقير ہے اس پر بهى گفتگو ہوئى، مولانا تهانوى ايسے لوگوں كو خلافت دينے سے احتراز كرتے تهے، ايك صاحب نے يہاں تك كہا كه مولانا تهانوى نے بہشتى زيور ميں چهوٹى ذات كے لوگوں كے لئے رذيل كا لفظ استعمال كيا ہے، ميرے خيال ميں اس كى تحقيق كى ضرورت ہے، خلافت نه دينے كى وجه يه ہے كه شيخ طريقت كو وجاہت حاصل ہونى چاہئيے، اور عدم وجاہت استفاده كى راه ميں مانع ہوسكتى ہے، بہر حال چهوٹى ذات كے متعلق مولانا تهانوى  كے رويه كو ہندوستان كے سياق وسباق ميں سمجهنے كى ضرورت ہے ۔

 مولانا فراہى كو عالم عرب ميں وه شہرت حاصل نه ہوئى جس كے وه مستحق تهى، اس كى توجيه غامدى صاحب نے يه كى كه مولانا كى تحريريں اصولى مباحث پر مشتمل ہيں جو صرف خواص علماء كے فہم كى ہيں، عام علماء كو اس طرح كے امور سے بہت كم مناسبت ہوتى ہے، ميرے نزديك اس كى ايك وجه يه بهى ہے كه مولانا فراہى كى تحريريں ايجاز واختصار سے متصف ہيں، لوگ آسان اور واضح چيزوں كے دلداده ہوتے ہيں ۔

 ہندوستان كے موجود حالات پر بهى گفتگو ہوئى، اس پر اظظہار افسوس كيا گيا كه ہندوستان كى عدليه ميں بهى تعصب داخل ہوگيا ہے، غامدى صاحب نے ايك سوال كے جواب ميں فرمايا كه اس وقت امريكه اور انڈيا وغيره ميں جو انتہا پسندى ہے وه دير پا نہيں ہو سكتى، يه ايك دورانيه ہے جو جلد ہى ختم ہو جائے گا، الله تعالى اپنے بندوں پر رحم فرمائے ۔

 غامدى صاحب نے مجه سے ميرے كاموں كى تفصيل پوچهى، ميں نے كيمبرج اسلامك كالج اور السلام انسٹيٹيوٹ كا مختصر تعارف كرايا، ان ميں اپنى تدريسى اور انتظامى مشغوليتوں كا ذكر كيا، انہوں نے تصنيفات كے بارے ميں سوال كيا،  ميں نے ان پر اختصار سے گفتگو كى، اور مسلم شريف كى شرح كے متعلق اپنے منہج كو قدرے تفصيل سے بيان كيا، انہوں نے پوچها كه يه كام كب تك مكمل ہوجائے گا؟ ميں نے عرض كيا كه اميد ہے كه دو سال مزيد لگ جائيں گے، اللهم تممه بالخير وارزقه قبولا حسنا ۔

 تقريبا دس بجے ہم لوگوں نے اجازت لى، غامدى صاحب نے يه كہ كر ميرا شكريه ادا كيا كه ميں نے ملاقات كے لئے اتنى زحمت اٹهائى، راسته ميں عمر جاويد صاحب نے غامدى صاحب كى بعض منفرد آراء ميرے سامنے پيش كيں، ان ميں سے كچه كا ذكر نعمان على خان صاحب بهى مجه سے كرچكے ہيں، دونوں حضرات كى خواہش ہے كه ان مسائل پر ميں غامدى صاحب سے براه راست گفتگو كروں، اور يه گفتگو طلبه كى ايك جماعت كے سامنے ہو تاكه انہيں فائده ہو اور وه اختلاف كے آداب سيكهيں ۔

 ان حضرات نے غامدى صاحب كى چار رايوں كا خصوصيت سے تذكره كيا:

1- جمعه كى شرائط ميں يه ہے كه وه رياست كى سرپرستى ميں ہو، اور رياست كا سربراه خطبه دے اور جمعه پڑهائے، اس شرط كى رو سے دنيا كے اكثر ممالك ميں جمعه صحيح نہيں، اگر غامدى صاحب كسى ايسى جگه ہوتے ہيں جہاں جمعه پڑها جا رہا ہو تو اس ميں شريك ہوجاتے ہيں  تاكه مسلمانوں كى مخالفت لازم نه آئے، اور بعد ميں ظہر بهى ادا كرتے ہيں.

2- حضرت عيسى عليہ السلام كا انتقال ہوگيا ہے، اور انتقال كے بعد الله تعالى نے ان كو اپنے يہاں اٹهايا، نہ انہيں قتل كيا گيا ہے، اور نہ سولى دى گئى ہے.

3- يہ صحيح نہيں ہے كہ  قيامت كے قريب حضرت عيسى عليہ السلام كا نزول ہوگا.

4- دجال كے متعلق حديثيوں كى حيثيت محض قصہ كہانى كى ہے، اس ميں كوئى چيز صحيح نہيں ۔

 ان چاروں مسائل كے متعلق ميں نے اپنے اختلافات كا اظہار كيا، غامدى صاحب كے دلائل پر مختصر تبصره كيا، اور ان موضوعات پر ان سے گفتگو كے لئے آمادگى كا اظہار كيا، مجهے خطره يہ ہے كہ كہيں گفتگو مناظره كى شكل نہ اختيار كرلے، اور مناظره كے شنيع ہونے اور نقصان ده ہونے سے كسے انكار ہوسكتا ہے۔

 اس وقت جديد تعليم يافتہ طبقہ كى ايك جماعت غامدى صاحب كے خيالات سے مطمئن ہے، ان كے طريقۂ تشريح كى مداح ہے، اور بہت سے فقہى اور علمى مسائل ميں ان كى پير كار ہے، ہمارے  كچه علماء غامدى صاحب كے متعلق جس زبان كا استعمال كرتے ہيں وه ايك طرح كى بد تہذيبى ہے، جس كى وجہ سے علماء اور عام مسلمانوں كے درميان دورى بڑهتى جا رہى ہے، ہميں اختلافى مسائل پر گفتگو كے وقت سنجيده، پر سكون اور با وقار ہونا چاہئے، انداز علمى ہو اور زبان مہذب، الله تعالى ہميں اپنى كتاب كى سمجه عطا كرے ،  نبى اكرم صلى الله عليہ وسلم كى اطاعت كى سعادت دے، اور ايك دوسرے كا احترام كرنے  كى توفيق دے ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad