بسم اللّه الرحمن الرحيم
ندوه كے وه طلبہ جو كبهى نا لائق تھے
از: ڈاكٹر محمد اكرم ندوى
آكسفورڈ
ہے رنگ لالہ وگل ونسرين جدا جدا
ہر رنگ ميں بہار كا اثبات چاہئے
يه وصف وبيان ہے ندوه كے ان طلبه كا جنہيں پڑهنے لكهنے سے دلچسپى نہيں تهى، يه ايك آسان مضمون ہے، البته اس كے لئے موزوں عنوان كا انتخاب ہے كار دشوار، مثال جوئے شير فرہاد، جن طلبه كى منقبت خوانى مقصود ہے كيا ان كو نالائق كہا جا سكتا ہے؟ بظاہر اس كا جواب ہے كه نہيں، كيونكه وه نا لائق نہيں تهے، محنت نه كرنے كے باوجود ان ميں ايك تعداد ايسى تهى جن كا علمى امتياز مسلم تها، اور ان ميں اكثريت ان ہونہاروں كى تهى جنہوں نے زندگى كے دوسرے ميدانوں ميں اپنى عظمت كے پهريرے لہرا ديئے تهے۔
سمجھ ميں نہيں آتا كه ان كو كيا كہا جائے؟ ندوه ايك تعليمى اداره ہے، اور طلبه كا موضوع تحصيل علم ہے، اس لئے جب انہيں طلبه كہا جائے گا تو ان پر حكم بهى ان كے موضوع كے اعتبار سے لگايا جائے گا، اگر يه بات صحيح ہے تو شايد ان كے لئے سب سے زياده مناسب لفظ يہى ہے كه ان كو نالائق كہا جائے، يه ايك حقيقت ہے، ليكن كون ہے جو تلخ سچائيوں كو گوارا كرے، اخلاق و تہذيب كا تقاضا ہے كه ان مخلص دوستوں كے لئے كوئى ہلكا لفظ استعمال كيا جائے، اس كى ايك وجه يه بهى ہے كه يه طائفه شرافت ونجابت كا آئينه تها، اور خود دارى، وضعدارى، شائستگى اور حفظ مراتب ميں "فتيان صدق" كا نمونه تها، ان ميں وه بهى تهے جنہيں ندوه كے موقر اساتذه وشيوخ سے نسبت فرزندى حاصل تهى، دوران تعليم نه سہى ليكن فارغ التحصيل ہونے كے بعد ان ميں سے بہت سے لائق ہوئے اور انہوں نے علمى ودينى حلقوں ميں اپنى شناخت قائم كى، بنا بريں ان كے لئے "ندوه كے بالقوة لائق طلبه" كى تعبير زياده مناسب ہوگى، مگر اس پر يه اعتراض ہو سكتا ہے كه كيا اس طرح كے مضامين ايسى پيچيده منطقى اصطلاح كے متحمل ہو سكتے ہيں؟ يه تشريح ہے اس دلخراش سرخى لگانے كى:
خوش نصيب اس سے زياده كوئى دنيا ميں نہيں
پيار سے وه جس كو كمبخت كہا كرتے ہيں
يه اس وقت كى بات ہے جبكه ندوه كى فضا علمى وادبى تهى، وعظ، خطابت، سياست وصحافت نے اس قابل رشك ماحول كو اس قدر آلوده نہيں كيا تها، اور جب شاخوں كے طلبه جزء مغلوب تهے نه كه عنصر غالب، اور جب اساتذه صرف پڑهاتے تهے اور تعليم وتربيت ہى ان كا قيمتى مشغله تها ، بات پرانى ہے، پهر بهى كوشش كروں گا كه بهولى بسرى يادوں كے كچے دهاگے جوڑوں،اور يه آسان نہيں، كيونكه جب بهى ندوه موضوع سخن ہوتا ہهے تو ايسا لگتا ہے كه اس پرى خانه كے درو ديوار مجهے پكار رہے ہيں، اور ٹهنڈى چهاؤں كا آنچل تهامے ميرى طرف بانہيں بڑها رہے ہيں، سناٹے بول رہے ہيں، خاموشى گويا ہو رہى ہے، بے زبانى زباں بن رہى ہے، اور سكوت لب كشا ہو رہا ہے۔اس زمانه ميں ان طلبه كى كئى قسميں تهيں، كچه وه تهے جو سپورٹس ميں نماياں تهے، يا تو كريكٹ كهيلتے، يا فٹ بال، يا بيڈ مينٹن، تعليم كے دنوں ميں عصر كى نماز كے بعد كهيل ہوتا، اور جمعه كے دن صبح سے دو پہر تك، انہيں ميں وه طلبه بهى شامل تهے جو كهيلتے تو نہيں تهے ليكن كهيل ديكهنے كے شوقين تهے، ان دونوں قسم كے طلبه كى آپس ميں بہت گہرى دوستى تهى، ندوه كى فٹ بال كى ٹيم قومى معيار كى تهى، ليكن اس نے كبهى قومى سطح پر نہيں كهيلا، لكهنؤ يونيورسٹى وغيره كى ٹيموں سے وقتا فوقتا اس كے ميچ ہوتے رہتے تهے۔
مغرب كے بعد يه شيدائيان لہو ولعب كينٹين ميں بيٹهكر چائے پيتے، كهيل پر تبصرے كرتے،اور ہمجوليوں كے ساته قہقہے لگاتے، كبهى كبهى ان كى محفل لاله زار عشاء كے بعد بهى لگتى، وه اپنے كمروں ميں بہت كم وقت گزارتے، كيونكه وہان دوسرے ساتهى مطالعه ميں مشغول ہوتے، اوريه ان كے درميان خود كو اجنبى محسوس كرتے، يا تو يه لوگ كسى ايسے كمره كو اپنى نشستگاه بناتے جس ميں اكثريت ان كى ہمنوا ہوتى، يا ہاسٹل سے باہر ٹہلتے ہوئے نظر آتے، يا شہر ميں كسى نه كسى بہانه گهومتے پهرتے، شايد ان كے لئے سب سے محفوظ جگه كينٹين ہى تهى، تعليمى درجات ميں حاضرى ان كے لئے بڑى صبر آزما ہوتى، درسگاہوں ميں كوئى كتاب لے كر نه آتے، كتاب، كاپى اور قلم ليكر چلنا اس طبقه كے لئے معيوب تها، يه لوگ كوشش كرتے كه بالكل پيچهے بيٹهيں، اور جب رجسٹر ميں حاضرى درج ہوجائے تو استاد كى نگاه سے بچتے ہوئے باہر نكل جاتے، اور اگر كلاس ميں بيٹهنا پڑا تو ان كے لئے وه قيامت كى ساعت ہوتى، گهٹن كے اس ماحول ميں انہيں اس سے تسلى ملتى كه "زندگى ہے تو خزاں كے دن بهى گزر جائيں گے"۔
ايك قسم ان طلبه كى تهى جو پڑهنے اور كهيلنے دونوں سے دور تهے، ان كو ليڈرى كا شوق تها، وه ہر اس كام ميں پيش پيش ہوتے جس سے ان كى اہميت ميں اضافه ہو، كانفرنسوں اور سيميناروں كے موقع پر ان كى خدمات حاصل كى جاتيں، ان كے كلام ميں شوكت ہوتى اور ان كى رائے كو وقعت دى جاتى، انتظاميه ، اساتذه اور ممتاز طلبه سے ان كے اچهے تعلقات تهے، ملازمين اور عام طلبه پر ان كا خوف طارى رہتا، بلكه اكثر اساتذه اور نگراں بهى ان كا خصوصى خيال ركهتے اور انہيں ضرورت سے زياده مراعات ديتے، دوسرے طلبه ان پر رشك كرتے، رہن سہن، گفتار وكردار، وضع وقطع، اور خوارك وپوشاك ميں يه لوگ نوابزادے معلوم ہوتے ۔
تيسرى قسم ان طلبه كى تهى جو ندوه ميں وقت گزارى كرتے، كهاتے پيتے اور عيش كرتے،ان كا جوش جنوں منت كش بہار نه تها، ان كى زندگى ميں آزادى، فراخى اور وارفتگى تهى، شہر ميں تفريح كرتے، سينما اور تهيٹروں كے چكر لگاتے، امام باڑه، بهول بهلياں، ريزيڈنسى وغيره تاريخى عمارتوں كى سير كرتے، بيگم حضرت محل پارك اور دوسرے خوش گوار مقامات ميں چہل قدمى كرتے، امين آباد ، قيصر باغ اور حضرت گنج كى رومان انگيز فضا ان كے ذوق جمال پسندى كو تسكين ديتى، اور ان كے گهر والے خوش رہتے كه وه ندوه ميں پڑه رہے ہيں، شايد ان كا مسلك يه تها كه كتابوں كے بجائے قدرت كى تخليقات اور انسانوں كى مصنوعات كا مطالعه زياده نفع بخش ہے، اور اس سے دماغى اور روحانى قوى كو پهلنے پهولنے كا صحيح موقع ملتا ہے، ان ميں وه بهى تهے جو شعر وشاعرى ميں استادانه مہارت ركهتے تهے، انہيں ميں سے ايك صاحب سے ميں نے يه پوچه ليا كه "دل" كے متعلق آپ كو كتنے اشعار ياد ہيں؟ بس اتنا كہنا تها كه اشعار كا بے ساخته ورود ہونے لگا، گويا ميرے سامنے كوئى بحر العلوم تها يا ايك دريائے نا پيدا كنار، يه سوال مجهے مہنگا پڑا، اور دوباره ايسا سوال كرنے سے توبه كى۔
يه كہنا كه وه نا لائق تهے اس لئے بهى صحيح نہيں كه انہوں نے ندوه كے امتحانات پاس كئے، سه ماہى اور ششماہى امتحان ان كے مقام سے فروتر تهے، ان امتحانوں ميں اگر دو تين كے نمبر ايك ساته جوڑ ديئے جاتے تب بهى وه پاس نه ہوتے، امتحانوں ميں فيل ہونا، سزا كے طور پر كهانے كا بند ہوجانا ان كے لئے كوئى فكر كى بات نه تهى، بلكه شايد يه ان كى وضعدارى كا حصه تها، سالانه امتحان ان كے لئے اہم تها اور اس كى تيارى مختلف طريقوں سے كرتے تهے، اسى تيارى كا نتيجه تها كه وه يہاں سے كامياب ہوئے، اور ندوى كہلائے ، ان كى ايك خوبى تهى كه ہر چيز پر ايك مختلف زاويه سے نگاه ڈالتے، حسن كائنات كو نئى نظر سے ديكهتے، اور اپنے احساسات وتجربات كو ايك اچهوتے پيرايه ميں بيان كرتے، جب ہم ان كى مبدعانه تشريح سنتے تو ہميں يقين ہوجاتا كه ان پر الہام ہوتا ہے يا حقائق ان كے سامنے بے پيرہن ہو جاتے ہيں، ان ميں وه بهى تهے جو ميرے دوست تهے، اور جو مجهے عزيز تهے، اور آج بهى ہيں، اور ندوى خصوصيات ميں كسى سے كم نہيں، بلكه رسمى تعليم كى تكميل كے بعد انہوں نے علم ودين كى وه خدمت كى جو تعليمى حيثيت سے نماياں طلبه نه كر سكے، اور ندوه كى نيكنامى كا ذريعه بنے، اور ہم ندويوں كے لئے فخر ومباہات كا باعث، ندوه سے نكلنے كے بعد انہوں نے دوسرے اداروں سى بهى كسب فيض كيا، ليكن ندوه كا رنگ سارے رنگوں پر غالب رہا۔
اس راز كا انكشاف ہم پر بعد ميں ہوا كه جن طلبه كو ہم اپنى كوتاه بينى كى وجه سے نا لائق اور بے كار سمجهتے تهے وه در اصل لا محدود قابليتوں كے مالك تهے، انہوں نے كتابوں كے تنگنايوں سے آزاد رہكر دار العلوم كى پہنائيوں اور كائنات كى وسيع فضاؤں ميں اپنى شخصيت كى تعمير كى تهى، جن صلاحيتوں كو ہم نے ندوه كى چہار ديوارى ميں ہميشه خفته ديكها وه ندوه كے باہر اچانك بيدار ہوگئيں، اور بيدار ہوئيں تو بڑى شان وبان سے، ان كى وجه سے وادى حيات ميں بہار آئى، اور كتنى نسليں ہيں جن كى پہبودى كا ان پر انحصار رہا۔
اس طائفۂ قدسيه كے مذكوره كمالات ہيں جنہوں نے ميرے اندر داعيه پيدا كيا كه ان كى ثنا خوانى كركے اپنے وقت كو شاد كروں، اور ان ساتهيوں سے معافى كا خواستگارہوں كه ان كے مقام كى معرفت ميں بڑى چوك ہوئى،سچ ہے كه كسى پر كوئى ليبل لگانے سے احتراز كرنا چاہئے، پہلے ميرى رائے يه تهى كه ندوه ميں اچهے اور برے دونوں قسم كے طلبه ہوتے ہيں، اب اس پر يقين بڑهتا جا رہا ہے كه ندوه ميں بستے ہيں صرف منتخبہائے روزگار ، اور ندوه سے نكلتے ہيں صرف معقول ومعتبر جواہر جو فيض رسانى ميں ہيں مانند نسيم گلزار وابر باد بہار:
حسينان جہاں كى ياد نے بے چين كر ڈالا
وه شكليں ہى نہ تهيں جنت ميں دل تها جن كا ديوانہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں