مضمون: راج دیپ سر دیسائی (سینیئر صحافی)
rajdeepsardesai52@gmail.com
مترجم: رئیس صِدّیقی
دہلی کا شاہین باغ عام دنوں میں ایک بھیڑ بھاڑ والا علاقہ ہے جہاں نالیاں کھلی ہیں اور بجلی کے کھلے تارخطرناک ڈھنگ سے لٹکے ہوئے ہیں لیکن شہریت ترمیمی بل قانون مخالف راجدھانی میں چل رہے مظاہروں کا مرکز جامعہ نگر سے متصل علاقوں میں یہ عام دن نہیں ہیں۔یہی وجہ ہے کہ گمنام سے شاہین باغ کو اچانک سے آواز مل گئی جو دور تک جا رہی ہے۔ یہاں زبردست ٹھنڈ کو مات دیکر بڑی تعداد میں خواتین دن رات شہری ترمیمی قانون مخالف مظاہروں کے لئے دھرنے پر بیٹھ رہی ہیں۔ان میں بہت سی خواتین ملازمت کرتی ہیں، جو آفس سے آنے کے بعد یہاں بیٹھتی ہیں۔باقی خواتین خانہ دار ہیں جو اپنے بچوںکو بھی ساتھ لاتی ہیں۔ نعرہ بازی، گیت و پوسٹر بنانے کے علاوہ،یہ ٹریفک روکتی ہیں اور ان سے انصاف کے لئے گہار لگاتی ہیں۔یہ دھرنے کے ساتھ ہی ایک کمیونٹی محفل بھی ہے۔(خبروں کے مطابق اب دیگر مذاہب کے لوگ بھی شامل ہو رہیں)غصہ کے باوجود، یہاں پرایک بھی پتھر نہیں پھینکا گیاہے۔انکا غصہ جامعہ میں طالب علموں کو پیٹنے والی دلی پولیس کے خلاف بھی اتنا ہی ہے،جتنا مودی سرکار کے خلاف، جسکو وہ مسلم مخالف مانتے ہیں۔ان میں شاید کچھ نے ہی نئے قانون کو پڑھا ہوگا۔جب میں نے انہیں یاد دلایا کہ وزیر اعظم اوروزیر داخلہ نے بار بار کہا ہے کہ اس قانون سے کوئی بھی ہندوستانی مسلمان متاثرنہیں ہوگا اور این۔آر۔ سی پر کوئی چرچہ نہیں ہوئی ہے تو وہ کہتی ہیں کہ بھروسہ نہیں ہے۔ظاہری طور پر یہ قانونی باریکیوں سے زیادہ، عوامی احساس ِ خوف کی لڑائی ہے۔سی۔اے۔اے و ا ین۔آر۔سی کی مخالفت کر رہے لوگ وں کو سرکار پر بھروسہ نہیں ہے۔انکو لگتا ہے کہ مودی سرکار کی ذہنیت اکثریت نواز ہے۔ایک مظاہرہ کرنے والے نے مجھ سے کہا کہ ایک دن امت شاہ کہتے ہیں کہ ملک میں ا ین۔آر۔سی آرہا ہے۔اگلے دن وزیر اعظم مودی کہتے ہیں کہ اس پر چرچہ ہی نہیں ہوئی ہے۔ ہم کس پربھروسہ کریں؟ ہمیں ان پر یقین کرنا ہی کیوں چاہئے؟جب میں نے پوچھا کہ کیا آپکو سرکار کی اُجّولا اور مُدرا یوجنا کا کا فائیدہ نہیں مل رہاہے؟ اس میں ہندو۔مسلم کہاں ہیں؟اس پر ایک بزرگ خاتون کہتی ہیں کہ یہ سب چنائو کے وقت ووٹوں کے لئے ہے۔کیا آپ سچ میںسوچتے ہوکہ پردھان منتری ہمیں برابر کا ناگرک (شہری) سمجھتے ہیں؟ انکی سرکار کے لئے تو ہم سب آتنکوادی(دہشتگر)ہیں۔شاہین باغ ۲۰۰۸ آتنکی مڈبھیڑ سے مشہور ہوئے بٹلہ ہائوس سے زیادہ دور نہیں ہے۔میں نے جب جامعہ میںمظاہروں کے دوران،بسیں جلانے، ہتھیاروں کا استعمال اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ آپ ٹی وی والے وہی جلائی گئی بس کی تصویربار بار دکھاتے ہیں۔ہم تو یہاں پولیس والوں کو گلاب کا پھول اور پانی دیتے ہیں۔میں نے پوچھا تو کیاآپ تشدد کی تائید کرتے ہیں؟ ایک دوشیزہ بولی کہ کون کہتا ہے کہ ہم ہنسا (تشدد) کی حمایت کرتے ہیں۔ کچھ باہری لوگوں کے کام کے لئے،ہمیں دوش دینا (الزام لگانا) بند کریں۔کیا ہمیں شانتی سے مظاہرہ کا حق بھی نہیں ہے۔یا آپ ہمارے لئے طر یقہء کارطے کرینگے کہ ہم مظاہرہ کیسے کریں۔لیکن آپ علی گڑھ، میرٹھ یا جامعہ میں پولیس کے تشدد کی بات نہیں کریں گے۔میرٹھ کے مظاہرین کو پاکستان جانے کے لئے کہہ رہے ایک سینئیرپولیس افسر کا ویڈیو یہاں وائرل ہے۔ یہ اکیلا ویڈیو نہیں ہے جو وائرل ہے۔ایک ویڈیو میں عاپ نیتا امانت اللہ خان لوگوںکو بھڑکا رہے ہیں۔ اس بارے میںپوچھنے پر وہ کہتی ہیں کہ وہ یہاں کے نیتا ہیں۔ اگر وہ ہماری بات اٹھاتے ہیں تو اس میں غلط کیا ہے؟ جب میںجانے لگا تو ان میں سے ایک نے کہا کہ اگلی بار مولویوں، پچاریوں اور نیتائوں کی جگہ ہمیں اسٹوڈیو میں بلانا۔شاید ہمارے وی آئی پی نیتائوں اور سرکار کے وزیروں کو شاہین باغ کی خواتین سے ملنا اورانہیں سننا چاہئے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں