نیشنل چینل زی۔نیوز پر ناموسِ رسالت پر حملہ !
پنڈت اومیش نے پیغمبر اسلام کو لائیو پروگرام میں گالی دی، مسلمانوں کے لیے شرم سے ڈوبنے کا مقام :
اللہ ربّ العزّت کے محبوب اور مسلمانوں کے عزیز از جان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں ایک بار پھر بدتمیزی اور گستاخی کی گئی ہے۔
پنڈت اومیش نے بھاجپا اور وشو ہندو پریشد کے لیڈروں کی موجودگی میں اللہ کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف صراحت سے ایسی گستاخی کی ہے کہ جس کو نقل کرنے کی ہمت نہیں ہے بس یہ کہا جاسکتا ہے کہ شانِ رسالت میں ایسی دریدہ دہنی کی مثالیں بہت کم ہیں ۔
گزشتہ کل 2 جون کو، زی نیوز کے پروگرام "تال۔ٹھوک کے" میں یہ گستاخانہ واردات انجام دی گئی ہے, اس پروگرام کا اینکر پرتش کھرے تھا، اور زی۔نیوز نے خود اسے بغیر کسی ایڈیٹنگ کے یوٹیوب پر اپلوڈ کیا پھر جب یہ ویڈیو وائرل ہوئی اور مسلمانوں نے سوشل میڈیا پر کارروائی کا مطالبہ شروع کیا تو زی۔نیوز نے اسے ڈیلیٹ کر دیا، جس کا صاف مطلب ہے کہ اس گستاخانہ واردات میں زی۔نیوز کھلم کھلا شریکِ جرم ہے ۔
کیا مسلمانوں کو اندازہ ہےکہ اس ملک میں پیغمبرِ اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی انہیں گالی دینا ان کی ذات پر کیچڑ اچھالنا نارمل ہوتا جارہا ہے ؟ ہندوتوادی عناصر ناموسِ رسالت میں بدزبانی کر کر کے اس جذبے کو مسلمانوں سے ختم کررہے ہیں ؟ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کو دیگر مذہبی شخصیات سے بھی نیچے لے جایا جارہا ہے ان کی ذاتِ اقدس کی حساسیت کو ختم کرکے اس کو آجکل کے سیاستدانوں کی شخصیت سے بھی نیچے لے جانے کی کوشش ہورہی ہے، کیا مسلمان اور مسلمانوں کی قیادت اس خطرے کو محسوس کررہی ہے ؟
میں کئی سالوں سے اس معاملے کی سنگینی کی طرف ایک ایک تنظیم اور جماعت کے قائدین کو متوجہ کررہا ہوں، مسلسل آواز لگا رہا ہوں لیکن افسوس کی بات ہےکہ اس ایمانی معاملے میں مسلمانوں کی مذہبی اور ملی قیادت کا رویہ صرف مجرمانہ خاموشی کا ہے، کیا انہیں یہ احساس نہیں کہ یہ تحفظ ختم نبوت اور تحفظ رسالت کا مسئلہ بنتا جارہا ہے ؟ اس معاملے میں مرکزی کردار سیاسی قائدین نہیں ادا کریں گے، تحفظ ناموسِ رسالت عشق و محبت کا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کو ثابت کرنے کا مشن ہے اسے مذہبی شخصیات اور ملی قائدین کو ہی ادا کرنا ہوگا،
دارالعلوم دیوبند، دارالعلوم ندوۃ، جمعیت علمائے ہند، پرسنل لا بورڈ، جماعت اسلامی اور سنی بریلوی و اہلحدیث مذہبی قیادتوں کو اس معاملے میں سڑکوں پر آنا ہوگا۔
وقف جائیداد کی لڑائی ہو یا سیاسی مسائل یہ سب ناموسِ رسالت کے قضیے کے سامنے معمولی مسائل ہیں لیکن شرمناک ہے کہ مسلمانوں نے اس مسئلے پر ایمانی حقوق کو پس پشت ڈال دیا ہے جس کی وجہ سے آج یہ صورتحال ہوگئی ہے ۔ اور کل مزید بھیانک ہوسکتی ہے ۔ سڑکوں اور گلیوں میں ایوانوں اور شیطان کے دیوانوں میں کھلے عام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت مزید شرمناک انداز میں پامال کیے جانے کا انتظار ہورہا ہے کیا ؟
یاد رکھو کہ ہندوتوادی ظالموں سے نہ تو ہم وقف قانون کی لڑائی جیت سکتے ہیں نہ ہی این آر سی، مدارس اور مساجد کی اگر ہم ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملے میں ان ظالموں کو شکست نہیں دے سکے تو ہم کوئی بھی لڑائی جیت نہیں سکتے ہیں ۔
اللہ کے محبوب اور ہمارے عزیز از جان نبی کی ناموس کو اگر آج ان گستاخیوں کے حوالے کر دیا گیا تو یاد رکھیں کہ ایمان کی روحانی برکتیں ہم سے منہ موڑ لیں گی اور ہندوتوادیوں کا شرک مزید جری ہو جائے گا، یہ گستاخیاں دردناک ہیں، اور ان کو روکنے میں ہماری ناکامی شرم سے ڈوبنے کا مقام ہے !
✍️: سمیع اللہ خان
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں