پروفیسر ارنالڈ
ذاکر حسین بانی: الفلاح فاؤنڈیشن (بلڈ ڈونیٹ گروپ)
28 جون 2025 آسمان پر بادل تھے، ہلکی ہوا، موسم میں خنکی اور کلاس روم کی خاموشی شرجیل کو عجیب لطف کا احساس دلا رہی تھیں۔ وہ کلاس روم کی کھڑکی سے باہر تیز رفتاری سے بہتی ندی اور موسم کی کیفیت کو محسوس کر اس میں کھو جانا چاہتا تھا۔ اچانک زوردار آواز نے اسے چونکنے پر مجبور کر دیا۔
چند لمحے وہ اس بات سے انجان رہا کہ چیخنے والا شخص اس پر اپنے غصے کا اظہار کر رہا تھا۔ شرجیل نے پلکیں جھپکائیں اور سیدھا ہوکر بیٹھ گیا۔ ایسا لگ رہا تھا، جیسے ابھی وہ نیند سے بیدار ہوا ہو۔ سر کی چیخ پکار سے وہ گھبرا گیا۔ ادھر آؤ، پروفیسر فرینک فرید نے حکم صادر کیا۔
شرجیل پلک جھپکتے بلیک بورڈ سے لگی پروفیسر کی کرسی کےپاس جا پہنچا۔ ہاتھ اوپر کرکے کھڑے ہو جاؤ۔ شرجیل نے حکم کی تعمیل کی اور سیدھا کھڑا ہو گیا۔ اس دن پروفیسر نے لگ بھگ ڈیڑھ گھنٹہ کلاس لی اور شرجیل کو اسی حالت میں کھڑا رہنا پڑا۔ دوسرا پیریڈ شروع ہوا تو اسے تھکا اور احساس کو زخمی کر دینے والی سزا سے نجات ملی۔
دوسرا پیریڈ پروفیسر ارنالڈ کا تھا۔ کلاس شروع کرنے سے پہلے ہی انہوں نے سوال کیا۔۔عالمی سطح پر سب سے زیادہ متاثر کن شخصیت میں سر فہرست کون ہے؟ کلاس میں چند منٹ سناٹا چھایا رہا۔۔ پھر اچانک سے شرجیل کی آواز کلاس روم میں گونجی۔ سر، دنیا کی سب سے متاثر کن اور انصاف و ایمانداری کی علامت پیغمبر محم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
پروفیسر نے کندھے اچکائے، گویا وہ شرجیل کے جواب سے مکمل اتفاق رکھتے ہوں۔ گڈ، پروفیسر گویا ہوئے۔ شرجیل صاحب یہ بتائیں کہ اسلام میں ذات پات ہے کیا؟ پروفیسر کے سوال پر شرجیل بوکھلا گیا۔۔ ذرا توقف کے بعد جواب دیا۔
نہیں سر۔۔ ذات پات اسلام میں نہیں ہے۔۔ تو پھر مسلمان کیوں شیخ، پٹھان، مرزا، انصاری وغیرہ میں بیٹے ہیں۔ پروفیسر کے چہرے پر چھائ طنزیہ مسکراہٹ کو شرجیل سمیت کلاس کے سبھی طلباء نے محسوس کیا
سر، شرجیل دوبارہ سے گویا ہوا۔۔ اسلام۔ نہیں بلکہ ہمارے سوشل سسٹم کا حصہ یہ شیخ، پٹھان، انصاری وغیرہ ہیں۔ اسلام کی مذہبی کتابوں میں ہندو ازم کی منو اسمرتی سمیت دیگر وید وغیرہ کی طرح کہیں بھی ذات پات سے اتفاق نہیں کیا گیا ہے۔ پروفیسر ارنالڈ شرجیل کے جواب پر خاموش رہے،
پھر بلیک بورڈ پر کلاس سے متعلق مضمون پڑھا کر چلے گئے۔پروفیسر کے جانے بعد کلاس میں بے ہنگم شور سے شرجیل نے ذہنی الجھن محسوس کی اور روم سے نکل کر زینے سے ٹیک لگا کر کھڑا ہوگیا۔ شرجیل کلاس میں اکلوتا مسلم طالب علم تھا۔ اسے روز مذہب ، رنگ، علاقہ کی بنیاد پر عصبیت کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ شرجیل سوچنے لگا۔۔ ابھی یونیورسٹی آئے ہوۓ ہفتہ بھی ہوا کہ اسے اس قدر ذہنی تکالیف کا سامنا کرنا پڑا کہ اس کا دل کرتا کہ وہ بھاگ کر اپنے ملک چلا جائے۔ لیکن جب اس کا ایسا ارادہ بنتا تو اس کی آنکھوں میں گھر سے رخصتی کے وقت ماں کے چہرے پر امیدوں کے سائے، باپ کے آنکھوں میں چھپے اس کیلئے روشن مستقبل کے خواب، بہن کے پیشانی پر چھائے فخر کے نشان اسے اس کا ارادہ ملتوی کرنے پر مجبور کر دیتے۔
اب تیسرا پیریڈ شروع ہو چکا تھا۔ لیکن شرجیل کلاس میں نہیں گیا۔ وہیں زینے پر بیٹھ کر اس نے تین گھنٹے گزارے۔ وہ سوچ رہا تھا کہ ہمارے ملک ہمارے شہر اور گاؤں میں جب ہم کسی کو ذات پات، علاقہ اور رنگ و نسل کی بنیاد پر اس کے ساتھ ناروا سلوک کرتے ہیں تو ہمیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ ہم انہیں کس قدر تکلیف میں مبتلا کرتے ہیں۔
شرجیل نے اعادہ کیا کہ اب وہ اپنے ملک جاکر اس بیماری کو جو کینسر سے زیادہ خطرناک ہے، اسے ختم کرے گا۔ سورج غروب ہو رہا تھا، بارش ہلکی پھوہار، ہلکی سرد ہوائیں اشارہ کر رہی تھیں کہ شرجیل کو اب ہاسٹل کا رخ کرنا چاہئے۔ دوسرے دن کھڑکی سے جھانکتی دھوپ نے اسے بیدار کیا۔ گھڑی دیکھی تو نو بج چکے تھے۔ یعنی پہلا پیریڈ پروفیسر ارنالڈ کا مکمل ہو چکا تھا۔
جلدی جلدی شاور لیا اور کلاس روم کی جانب تیز رفتاری سے بھاگا۔ کلاس میں داخل ہو کر اس نے بیگ سیدھا کر اپنے مضمون کی کتاب نکالی اور کتاب کا پہلا سبق پڑھنے میں مصروف ہوگیا۔ پانچ منٹ بعد پروفیسر فرید کلاس روم میں داخل ہو ئے۔ انہوں نے مضمون پڑھایا اور خاموشی سے کلاس روم سے باہر چلانے گئے۔ وقت گزرتا رہا۔۔
شرجیل کی سارہ سے دوستی ہو گئ تھی، وہ اس کی مدد کرتی اور انگلش زبان میں عبور حاصل کرنے میں شرجیل کا خوب ساتھ دیتی۔ سارہ لندن کے ایک مضافاتی علاقے میں اپنے والدین کے ساتھ رہائش پذیر تھی۔ ذرا چنچل لیکن دل کی نیک لڑکی، شرجیل کیلئے وہ سرپرست، دوست، استاد اور رہنما سب کچھ تھی۔ سچ تھا کہ شرجیل، سارہ کی وجہ سے ابھی تک یونیورسٹی میں ٹکا رہ گیا تھا۔
وقت گزرنے کے ساتھ پہلے سیمسٹرکا ایکزام شروع ہوا۔ شرجیل کو ٹائفائڈ نے جکڑ لیا، مہینوں وہ چلنے پھرنے لائق نہیں رہا۔ ڈپارٹمنٹ میں میڈیکل لیو لگائ، جو قبول نہیں ہوئ، آخیر کار اسے ڈیٹین کر دیا گیا اور اس کا دل پڑھائ سے اچٹ گیا۔ اسے ڈیٹین کرنے میں پروفیسر ارنالڈ کا اہم رول رہا۔
شاید انہیں شرجیل کی پہلے دن کی کلاس کا تبادلہ خیال پسند نہیں آیا تھا۔ شرجیل اس دن کیمپس کے میدان میں بیٹھ کر بہت رویا۔ اس دن اس کے دل میں خیال آیا کہ میری طر ح کتنے بچے پروفیسر اور اساتذہ کی وجہ سے پڑھائ چھوڑتے ہیں۔ آج اسے احساس ہوا کہ تعلیم الگ چیز ہے اور تربیت الگ چیز۔ دونوں کو ایک ساتھ نہیں جوڑ سکتے۔
ضروری نہیں کہ تعلیم یافتہ شخص بہت اچھا انسان بھی ہو۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ ایک کم پڑھا لکھا شخص برا انسان ہی ہو۔ شرجیل نے ارادہ کیا کہ وہ قانون کی پڑھائ کرے گا اور ذات پات کے ساتھ ساتھ پروفیسر ارنالڈ جیسے اساتذہ کے خلاف کیس لڑے گا۔ لیکن اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کیلئے جن ذرائع کی ضرورت تھی، وہ شرجیل کے پاس نہیں تھے۔
وہ گھنٹوں یونیورسٹی کے کیمپس میں بیٹھا رہا۔۔ سورج اب پوری آب و تاب سے چمکنے لگا۔ شرجیل کو مجبوراً وہاں سے ہٹنا پڑا۔وہ۔ وہاں سے نکل کر ہاسٹل گیا اور روم بند کر لیٹ گیا۔ نیند کہاں آتی۔ بس کوشش تھی کہ نیند آجاتی۔ لیکن جب حالات برے ہوں تو انسانی رشتوں کے ساتھ روحانی رشتے بھی جواب دینے لگتے ہیں۔
شرجیل نے اٹھ کر چائے بنائ اور چائے کی چسکی لیتے ہوئے سوچنے لگا کہ یہ پروفیسر، اساتذہ میرے جیسے کتنے طلباء کی زندگی خراب کرتے ہونگے۔ کتنے بچوں کی زندگی نفرت میں ڈوبے یہ تعلیم یافتہ ویلن کی نفرت کے بھنیٹ چڑھتے ہونگے۔ اس نے ہونٹ بھینچے اور ڈھلتے سورج کو بغور دیکھنے لگا۔۔۔ کچھ دیر میں سورج غروب ہو چکا تھا، شرجیل اداس نظروں سے ڈوبتے سورج کو تکے جا رہا تھا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں