علی گڑھ میں انسانیت سوز دہشتگردی ناقابل برداشت
کچھ روز پہلے ایک پارلیمانی نشست میں وزیر برائے اقلیتی امور کرن رجیجیو نے وقف ترمیمی بل کو اس دعویٰ کے ساتھ متعارف کرایا تھا کہ یہ مسلمانوں کے حق میں ہے ، لہذا اب تک مسلمانوں کی جتنی بھی حقوق تلفی ہوئی ہے ، اس سے ان سب کی تلافی ہوگی اور حکومت مسلمانوں کے فائدے کے لیے پیش قدمی کرے گی ۔
اس سے قبل بھی ۲۰۲۴ کے الیکشن کے وقت وزیر داخلہ امت شاہ نے دوبارہ nrc اور caa کے بل کو پیش کرنے کا دعویٰ کیا تھا کہ الیکشن سے پہلے اس بل کو ہر حال میں پاس کرایا جائے گا ۔ کیونکہ یہ مسلمانوں کے حقوق کی بازیابی کے لیے ہے ، اس کے ذریعہ شہریت چھینی نہیں بلکہ شہریت دی جائے گی۔
اب حالات اور گزشتہ واقعات کو مد نظر رکھتے ہوئے ان تما چیزوں کو ایک مثل سے تعبیر کیا جاسکتا ہے " گڑ میں زہر ملاکر قتل کیا جارہا ہے " جابرین ، بھولے بھالے معصوم مسلمانوں کے سامنے اپنی شبیہ کو صاف کرنے کے ساتھ اقلیتوں کے حقوق کو پامال کرنے ، جرائم کو بڑھاوا دینے ، مسلمانوں کی ماب لنچنگ سے روگردانی کرنے کا گھول بھی اس میں شامل کررہے ہیں ۔
لیکن سوال پھر وہی ہے ، جو ہر کسی کی زبان کرنا چاہتی ہے لیکن تشدد کا خوف یا تعصب کی عینک آڑے آجاتی ہے ۔۔ چلیے ایک لمحہ وقف ترمیمی بل اور این آر سی والے مدعی میں تاویل کو فرض کیا جاسکتا ہے ۔ لیکن ہر کسی کی زبان پر آنے والا سوال یہ ہے کہ اگر مسلمانوں کے مفاد کے لیے حکومت کام کررہی ہے تو ماب لنچنگ ، قتل عام ، تشدد ان سب سے روگردانی میں کس قوم ، کس خطے ، کس ملک کا مفاد وابستہ ہے ؟
آئے روز کوئی بھی مسلمان ہجومی تشدد کا شکار ہوتا ہے ، کبھی مذہبی تعصب جے ایس آر کے نعرے کے ساتھ قتل پر بر انگیختہ کرتا ہے تو کبھی ٹرین میں کوئی معصوم سرکاری کلاشنکوف کا نشانہ بن جاتا ہے ۔۔
اب علی گڑھ میں ہونے والے حادثہ کے بارے میں کیا کہا جائے گا ؟ جس میں تین مسلمانوں پر بجرنگ دل والوں نے حملے کرکے ایسا تشدد کا نشانہ بنایا ہے کہ انکی شناخت بھی مشکل ہوگئی ہے ، ان پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ یہ گائے کا گوشت لیکر جارہے تھے ۔
حالانکہ کچھ خبروں کے مطابق افسران نے گائے کے گوشت کے بارے میں نفی کی ہے مزید تاجرین کے پاس ایکسپورٹ کا لائسنس بھی موجود تھا ۔ اسکے بعد ایک جمہوری ملک میں اس طرح کی حرکت مستزادیہ مجرمین سے چشم پوشی نا صرف اقلیتوں کے حقوق کو روندے رہی ہے بلکہ عدلیہ نظام پر بھی سوالیہ نشان لگا رہی ہے ۔۔
سوچیے اگر لائسنس کے باوجود ایکسپورٹ جرم ہے تو پھر جمہوریت اور قانون کس کام کا ؟
ہمارے یہاں الیکٹورل بونڈ جیسے اسکیم اور گائے کے گوشت ایکسپورٹ کرنے والی کمپنیوں سے چندہ لینے کے باوجود مجرمین پر حرف نہیں آتا اور جو معصوم قانونی دائرہ میں رہ کر کام کرتے ہیں ، ہندوستان کے وفادار شہری ہیں ، انکو سر عام راہ چلتے ہجومی تشدد کا نشانہ بنالیا جاتا ہے ۔ کیا اب تک اسی حقوق اور مفاد کی بات چل رہی تھی ؟
اگر کاروائی کا دلاسہ دیا بھی جارہا ہے تو پھر سوال وہی ہے کہ اس سے قبل کتنے مجرموں کو سزا ملی ؟ اقلیتوں اور obc کے ساتھ تشدد کرنے والوں کا کوئی علاج ہوا ؟ رام جی لال سمن جیسے سانسد پر حملہ کرنے والوں کو جرات کہاں سے آئی ؟
نا ہی کوئی ایکشن ہے نا ریکشن ، بلکہ مسلمانوں کے حقوق کی بازیابی اور مفاد کا دعویٰ ہے ۔ امن و امان کا حال یہ ہے کہ اب مسلمانوں کا روڈ چلنا اور سفر کرنا ایک مشکل ترین کام ہوچکا ہے ۔ دوسری طرف وہ مسلمان ہیں جو ہمیشہ اس ملک اور قانونی بالادستی کو پیش پیش رکھ کر دہشتگردانہ حملوں کی مذمت کرتے ہیں ، پروٹیسٹ کرکے کینڈل مارچ نکالتے ہیں ،
ہندوستان زندہ باد کے نعرے دیتے ہیں ، دیگر ممالک میں اخوت اور بھائی چارگی کی مثال کے طور پر اپنے ملک کو رپرزینٹ کرتے ہیں ۔ لیکن حقیقت حال سے جس کو واقفیت ہوجائے اسکے پاس شرمندگی کے علاؤہ کچھ نہیں رہتا ۔ انسانیت بھی جس کے سامنے گھٹنے ٹیک دے وہ یہی درندے ہیں ۔
سمرہ عبدالرب
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں