تازہ ترین

پیر، 28 اپریل، 2025

شربت روح افزا: ذائقے کا سوال یا مذہبی ہم آہنگی پر حملہ؟ – رام دیو کے اشتہار کا تنقیدی جائزہ

شربت روح افزا: ذائقے کا سوال یا مذہبی ہم آہنگی پر حملہ؟ – رام دیو کے اشتہار کا تنقیدی جائزہ
ہشام محمد اجمل اپریل 2025 میں یوگا گرو اور پتنجلی آیوروید کے بانی رکن بابا رام دیو کی جانب سے جاری کردہ ایک اشتہاری ویڈیو نے بھارت میں شدید تنازع کو جنم دیا۔ 

اس پروموشنل ویڈیو میں، پتنجلی کے گلابی شربت کی تشہیر کرتے ہوئے رام دیو نے “شربت جہاد” کی اصطلاح استعمال کی۔ ان کا دعویٰ تھا کہ ایک مدمقابل برانڈ — جس سے مراد ہمدرد کا معروف مشروب “روح افزا” لیا گیا — اس کی فروخت سے حاصل شدہ منافع مساجد اور مدرسوں کی مالی اعانت کے لیے استعمال ہوتے ہیں، جب کہ پتنجلی کی مصنوعات گروکل، آچاریہ کلوم، پتنجلی یونیورسٹی اور بھارتیہ شکشا بورڈ جیسے ہندو اداروں کی مدد کرتی ہیں۔

یہ ویڈیو، جو پتنجلی کے سرکاری فیس بک صفحے پر پوسٹ کی گئی، تیزی سے وائرل ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس نے سوشل میڈیا پر مذہبی ہم آہنگی، صارفین کی آزادیِ انتخاب اور اشتہاری اخلاقیات پر ایک شدید بحث کو جنم دے دیا۔

 اس مضمون میں ہم اس اشتہار کا تنقیدی جائزہ لیں گے اور یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ آیا رام دیو کی مہم روح افزا کے کاروباری طریقوں پر جائز تنقید ہے یا درحقیقت بھارتی معاشرتی ہم آہنگی پر ایک حملہ۔

*روح افزا: ایک ثقافتی و طبی علامت*
“روح افزا”، جس کا لغوی مفہوم ہے “روح کو تازگی بخشنے والا”، بھارت کے طول و عرض میں محض ایک مشروب نہیں بلکہ ایک ثقافتی روایت کا درجہ رکھتا ہے۔ اسے 1907 میں حکیم حافظ عبدالمجید نے تیار کیا، جن کا تعلق یونانی طب کی روایت سے تھا۔ 

یہ شربت ابتدا میں گرمی کے اثرات سے بچاؤ اور جسم میں پانی کی کمی کو دور کرنے کے لیے وضع کیا گیا تھا، تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ برصغیر کی سماجی اور مذہبی تقریبات، خصوصاً رمضان المبارک میں افطار کے موقع پر، ایک ناگزیر حصہ بن چکا ہے۔
روح افزا کو تیار کرنے والی کمپنی "ہمدرد لیبارٹریز" 1948 سے ایک وقف ٹرسٹ کے طور پر کام کر رہی ہے، اور اس کے منافع تعلیمی، طبی اور سماجی بہبود کی سرگرمیوں پر صرف کیے جاتے ہیں۔ اس شربت کی مقبولیت مذہبی اور ثقافتی سرحدوں سے ماورا ہے، اور یہ بلاامتیاز مذہب و ملت ہر گھرانے کی پہچان بن چکا ہے۔

تاہم، ہمدرد کے مسلم بانی اور اس کا وقف ادارہ ہونا آج کے شدید مذہبی تقسیم کے شکار معاشرتی پس منظر میں ایک ہدف بن چکا ہے۔ 2024 میں منظور شدہ وقف ترمیمی قانون، جس نے مسلم اداروں کے خلاف ایک فضا قائم کی، اسی پس منظر میں رام دیو کا بیان اور اشتہاری مہم پیش آئی۔ اس مہم نے روح افزا کو ایک ہمہ گیر ثقافتی پروڈکٹ کے بجائے ایک مخصوص مذہبی ایجنڈے سے جوڑنے کی کوشش کی۔

*رام دیو کی اشتہاری حکمت عملی: بیان بازی یا اشتعال انگیزی*تین اپریل 2025 کو شائع ہونے والی اس ویڈیو میں رام دیو نے مروجہ سافٹ ڈرنکس کو "ٹوائلٹ کلینر" سے تشبیہ دی، اور پھر اپنا رخ شربت کی طرف موڑا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ ایک معروف شربت کے منافع مذہبی مدارس اور مساجد کی مالی امداد میں استعمال ہوتے ہیں، جب کہ ان کا متبادل پروڈکٹ ہندو تعلیمی اداروں کی پرورش کرتا ہے۔

اگرچہ انہوں نے براہِ راست روح افزا کا نام نہیں لیا، مگر تنقید کی سمت اور اشارے اتنے واضح تھے کہ میڈیا اور سوشل میڈیا صارفین نے فوراً اس کو پہچان لیا۔ ویڈیو کے کیپشن میں ایک اشتعال انگیز اپیل بھی شامل تھی، جس میں صارفین سے کہا گیا: “اپنے معصوم بچوں کو ‘شربت جہاد’ اور ٹوائلٹ کلینرز کے زہر سے بچائیں۔”

"شربت جہاد" کی اصطلاح بذاتِ خود اشتعال انگیز ہے، اور یہ “لو جہاد” یا “ووٹ جہاد” جیسی اصطلاحات سے مماثلت رکھتی ہے، جنہیں انتہا پسند ہندوتوا حلقے مسلمانوں کے خلاف منفی بیانیے قائم کرنے کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔ 

رام دیو کی اس بیان بازی کا مقصد نہ صرف تجارتی حریف کو نیچا دکھانا ہے بلکہ خریدار کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرنا بھی ہے، جہاں محض ایک مشروب کی خریداری کو عقیدے کا اظہار بنا دیا گیا ہے۔

*سوشل میڈیا کا ردعمل: مزاح، مذمت اور تنقید*
اس ویڈیو کے جاری ہوتے ہی سوشل میڈیا پر شدید ردعمل دیکھنے کو ملا۔ ناقدین نے رام دیو پر فرقہ وارانہ منافرت کو ہوا دینے کا الزام لگایا۔ مشہور کارٹونسٹ ستیش آچاریہ نے اس مہم کو “بوٹلڈ نفرت” کا عنوان دیا، جب کہ متعدد صارفین نے یاد دلایا کہ یہی رام دیو خلیجی ممالک میں اپنی مصنوعات کے لیے "حلال سرٹیفیکیشن" حاصل کرتے ہیں، مگر بھارت میں ایک مسلم برانڈ کو بدنام کرتے ہیں۔

کچھ تبصرہ نگاروں نے مہم کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا: “ہمیں GTA 6 سے پہلے ‘شربت جہاد’ مل گیا۔” جب کہ دیگر نے پتنجلی کی گرتی ہوئی فروخت اور مارکیٹ میں ساکھ کے زوال کو اس مہم کے پیچھے کارفرما وجہ قرار دیا۔

اس کے برعکس، رام دیو کے حامیوں نے ان کی حمایت میں بیانات دیے اور اس مہم کو ہندو مفادات کا تحفظ قرار دیا۔ دائیں بازو کے کچھ تبصرہ نگاروں نے دعویٰ کیا کہ رام دیو محض صارفین کو "شفافیت" فراہم کر رہے ہیں۔

ہمدرد کاموقف: وقار کے ساتھ جواب

ہمدرد کی جانب سے ایک معتدل مگر مؤثر ردعمل سامنے آیا۔ انہوں نے ایک سلسلہ وار پوسٹس کے ذریعے روح افزا کے معیار، قدرتی اجزاء اور ایف ایس ایس اے آئی کی منظوری کی تفصیل پیش کی۔ اگرچہ کمپنی نے رام دیو کے الزامات کا براہ راست جواب دینے سے گریز کیا، تاہم ان کا انداز دلیل، وقار اور خود اعتمادی کا مظہر تھا۔

یہ رویہ اگرچہ وقار آمیز تھا، تاہم بعض حلقے چاہتے تھے کہ ہمدرد ایک مضبوط قانونی یا عوامی جوابی کارروائی کرے تاکہ فرقہ وارانہ پروپیگنڈا کو چیلنج کیا جا سکے۔

*سیاسی و قانونی پہلو*
15 اپریل 2025 کو کانگریس رہنما دگ وجے سنگھ نے بھوپال میں رام دیو کے خلاف پولیس شکایت درج کرائی۔ ان کا مؤقف تھا کہ “شربت جہاد” جیسی اصطلاح نہ صرف مذہبی نفرت پھیلانے کی کوشش ہے بلکہ یہ بھارتیہ نیائے سنہیتا کی شق 199 کی کھلی خلاف ورزی بھی ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ رام دیو فرقہ وارانہ بنیادوں پر مارکیٹ کو تقسیم کر رہے ہیں اور ساتھ ہی مدھیہ پردیش میں ان کے منصوبوں کے لیے حاصل کی گئی سرکاری زمین پر بھی سوال اٹھائے۔

یہ شکایت صرف ایک قانونی کارروائی نہیں بلکہ رام دیو کے سیاسی و تجارتی اثر و رسوخ پر بھی سوالیہ نشان ہے۔ ایک ایسے ماحول میں جہاں وقف جائیدادوں پر قانون سازی ہو چکی ہو، وہاں ایک مسلم ٹرسٹ کو نشانہ بنانا ایک حساب شدہ حکمتِ عملی کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔

*اخلاقی اور معاشی اثرات*
اس مہم کا سب سے اہم پہلو اخلاقی نوعیت کا ہے۔ تجارتی مقابلہ اپنی جگہ، مگر کسی برانڈ کو مذہبی اور قومی تشخص کے خطرے کے طور پر پیش کرنا سراسر غیر اخلاقی عمل ہے۔ روح افزا ایک وقف ادارے کے تحت چلنے والا وہ برانڈ ہے جو تعلیمی، طبی اور سماجی خدمات انجام دیتا ہے۔ اس کے منافع صرف مذہبی اداروں تک محدود نہیں بلکہ وسیع تر عوامی فلاح و بہبود میں صرف ہوتے ہیں۔

رام دیو کے الزامات ان حقائق کو نظرانداز کرتے ہیں، اور مدارس سے وابستہ منفی تصورات کو بنیاد بنا کر ایک مخصوص فرقے کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے اپنے شربت میں روح افزا سے کوئی خاص فرق یا انفرادیت نہیں، سوائے مذہبی رنگ دینے کے۔

معاشی لحاظ سے یہ مہم اقلیتی ملکیت والے کاروباروں کے خلاف ایک خطرناک رجحان کی بنیاد ڈال سکتی ہے۔ اگر ایک پرامن، صدیوں پرانے برانڈ کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے، تو دیگر چھوٹے مسلم کاروباروں کے لیے یہ ایک تشویشناک مثال بن سکتی ہے۔

*مذہبی ہم آہنگی پر اثرات*
بھارت کی سب سے بڑی طاقت اس کی کثرت میں وحدت ہے۔ روح افزا جیسے مشروبات اس تنوع کے نمائندہ ہیں، جو مذہب، نسل یا ثقافت سے بالاتر ہو کر ہر گھر کا حصہ بن چکے ہیں۔ رام دیو کی کوشش اس ہم آہنگی کو مجروح کرنے کے مترادف ہے۔ ایک ایسا مشروب جو افطار سے لے کر گرمیوں کی ضیافت تک ہر موقع پر استعمال ہوتا ہے، اسے اب مذہبی کشمکش کا میدان بنا دیا گیا ہے۔

یہ ستم ظریفی بھی قابل غور ہے کہ ایک یوگا گرو، جس کا پیغام ہم آہنگی اور روحانی ارتقاء پر مبنی ہونا چاہیے، وہ تجارتی مفادات کے لیے مذہبی منافرت کو ہوا دے رہا ہے۔

*آگے کا راستہ: توازن کی بحالی*
اس بحران کے تناظر میں چند اقدامات ناگزیر ہو چکے ہیں۔

ہمدرد کو چاہیے کہ وہ ایک جارحانہ مگر مثبت انداز میں اپنی خدمات، شفافیت اور قومی ترقی میں کردار کو اجاگر کرے۔

حکومتی اداروں کو اشتہاری اخلاقیات کی خلاف ورزی پر غیرجانبدارانہ کارروائی کرنی چاہیے تاکہ فرقہ وارانہ بیان بازی کو اشتہار میں جگہ دینے کی حوصلہ شکنی ہو۔

عام صارفین کو بھی ہوش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسے بیانیے کو مسترد کرنا چاہیے جو تفرقہ انگیزی کو ہوا دے۔

بابا رام دیو کی اشتہاری تاریخ، کورونا کے علاج کے جھوٹے دعوؤں سے لے کر متعدد قانونی تنازعات تک، یہ ظاہر کرتی ہے کہ وہ توجہ حاصل کرنے کے لیے اشتعال انگیزی کا سہارا لیتے ہیں۔ "شربت جہاد" کا بیانیہ بھی صارفین کے ذوق کی نمائندگی نہیں، بلکہ ایک چالاک کوشش ہے مذہبی تقسیم سے تجارتی فائدہ اٹھانے کی۔

رام دیو کی “شربت جہاد” مہم، صرف ایک اشتہاری کوشش نہیں بلکہ ایک خطرناک رجحان کی نمائندگی کرتی ہے جہاں تجارت کو فرقہ وارانہ رنگ دے کر قوم کو تقسیم کیا جاتا ہے۔ روح افزا جیسے پروڈکٹ، جو صدیوں سے مشترکہ تہذیب و ثقافت کی علامت ہیں، کو اس نوع کی بیان بازی کا نشانہ بنانا نہ صرف غیر اخلاقی ہے بلکہ بھارت کے سماجی تانے بانے کے لیے بھی خطرناک ہے۔

ہمیں یہ طے کرنا ہے کہ مشروب کا انتخاب ذائقے کی بنیاد پر کریں گے یا مذہبی شناخت کی بنیاد پر۔ سچ یہ ہے کہ روح افزا، اتحاد اور ہم آہنگی کا مشروب ہے؛ اور اس کی حفاظت محض ایک برانڈ کی نہیں، بلکہ ایک ہمہ گیر ہندوستانی شناخت کی حفاظت ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad