تازہ ترین

پیر، 13 اپریل، 2020

کیا علماء سچ مچ انبیاء کے وارثین ہیں؟

از- مولانا بارود ندوی
کیا علماء دین اور فارغین مدارس سچ مچ انبیاء کے وراثین ہیں۔ حدیث شریف میں آتا ہے العلماء ورثۃ الأنبیاء، اگر کوئی خود ہی علم دین حاصل کر لے تو کیا اس کا شمار عالم دین اور وارث نبی میں ہو گا؟ اگر آنحضور ﷺ کے وارثین علماء اور فارغین مدارس ہیں تو طب نبوی کی بھی وراثت کو تسلیم کرنا ہو گا۔ اس لحاظ سے سارے اطباء، ڈاکٹرس اور سرجن بھی وارثینِ نبی ہوگے۔ کیا علم طبیعیات، علم حیات، علم بناتات، علم سیاسیات، علم معاشیات وغیرہ کے ماہرین بھی وارثین نبوت میں شامل ہیں؟ اگر یہ نہیں شامل ہیں تو علماء دین کیونکر شامل ہو سکتے ہیں؟ کیونکہ دین کا لفظ علم کے ساتھ (علم دین یا علماء دین) نہ تو قرآن میں کہیں آیا ہے اور نہ احادیث میں ان کا ذکر ہے۔ پھر اگر مان لیا جائے کہ علماء اور فارقین مدارس انبیاء کے وارثین ہیں تو پھر کون سا عالم وارث ہے؟ علم قرآن یا علم حدیث یا علم فقہ یا سبھی علوم؟ کیونکہ صرف ونحو اور منطق وفلسفہ پڑھنے اور پڑھانے والے علماء کا مروجہ دینی علوم سے کوئی تعلق نہیں، یہ علوم ضمنی ہیں، پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کون کون علماء وارثین نبوت ہیں؟ حنفی، شافعی، مالکی یا حنبلی یا اہل حدیث، شیعہ یا سنی؟ کیا واقعی اس حدیث میں صداقت ہے، جس سے وارثین نبوت کا استدلال کیا جاتا ہے یا وہ حدیث قرآن کی آیتوں کے خلاف ہے؟ یہ سارے سوالات جواب چاہتے ہیں۔

میں اپنی تحقیق کے مطابق اس نتیجے پر نہیں ہوں کہ علماء وارثین نبوت نہیں ہیں، اگر وارثین نبوت کی حدیث کو صحیح بھی ٹھہرا دیا جائے تو تمام علوم کے ماہرین جیسے مفسرین، محدثین، فقہاء کی طرح ڈاکٹرس، سائنس داں، انجینئرس، وکلاء، پروفیسرز سارے کے سارے وارثین نبوت ہیں، شرط یہ ہے کہ وہ مومن ہوں۔سچ یہ ہے کہ جب تک امت تمام علوم کے ماہرین کو اسی نگاہ تقدس سے نہیں دیکھے گی اس امت کی حالت میں سدھار ممکن نہیں ہے۔سب سے پہلے یہ جاننا دلچسپی کا باعث ہو گا کہ قرآن پاک میں کہیں بھی علماء دین، علماء شریعت کا لفظ نہیں آیا ہے۔ قرآن پاک میں علماء کا لفظ دو بار آیا ہے، ایک جگہ آتا ہے أولم یکن لہم آیۃ أن یعلمہ علماء بني اسرائیل (197) دوسری جگہ سورہ فاطر میں آیت نمبر 28 میں ہے: إنما یخشی اللہ من عبادہ العلماء، یہی نہیں قرآن پاک کی جو پہلی آیت نازل ہوئی اس میں بھی علوم دین کا ذکر نہیں ہے: وعلم الانسان ما لم یعلم وعلم بالقلم، اس کے علاوہ کئی جگہوں پر اولوا العلم کا لفظ آیا ہے۔ پورے قرآن میں کہیں یہ ذکر نہیں ملتا کہ علماء سے مراد علماء دین ہی ہیں۔

عربی زبان علم کو جہل کا ضد مانا گیا ہے۔ لسان العرب میں لکھا ہے والعلم نقیض الجہل علم علما وعلم ہو نفسہ، عالم کا مطلب اردو زبان میں جاننے والا کیا جاتا ہے، جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی علم (نافع) جاننے والا عالم کہلاتا ہے۔ لہٰذا علماء کی فہرست میں سارے ہی علوم کے ماہرین شامل ہیں۔دینی علوم اور دنیاوی علوم کی تقسیم ایک ایسی بدعت ہے جو حضور اقدس ﷺ کے کئی سو سال بعد معرضِ وجود میں آئی۔ یہی وجہ ہے کہ بغداد کا دار الحکمۃ اور آٹھویں، نویں، دسویں اور گیارہویں صدی میں جو بھی سائنس داں پیدا ہوئے، جیسے رازی، فارابی، ابن الہیثم، ابن سینا وغیرہ یہ سبھی قرآن وحدیث کے بھی عالم تھے اور اپنے اپنے شعبہ کے بھی عالم، مگر بعد کے صدیوں میں مدارس کا قیام عمل میں آیا، جہاں پر صرف علوم دینیہ کی تعلیم ہوتی تھی اور وہاں سے علوم عصریہ اور علوم دینیہ کے دو خانوں میں علوم کو بانٹ دیا گیا۔ غور طلب امر یہ ہے کہ حضور ﷺ سے متصل صدیوں میں علم کی تقسیم بالکل نہیں تھی اور یہی قرآن پاک کا منشا اور مقصد بھی تھا۔ چنانچہ ہمیں قرآن کے اندر کہیں بھی علم دین یا علم شریعت کی تخصیص نہیں ملتی۔

اب اس حدیث مبارکہ پر غور کرنے کی ضرورت ہے جس کی بنیاد پر علماء وفارغین مدارس کو وارثین نبوت قرار دیا جاتا ہے، حدیث میں آتا ہے: عن أبی الدرداءؓ قال: فإني سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول (من سلک طریقاً یبتغي فیہ علما سلک اللہ بہ طریقاً إلی الجنۃ وإن الجنۃ وإن الملائکۃ لتضع أجنحتہا رضاءً لطالب العلم وإن العالم لیستغفر لہ من في السموات ومن في الأرض، حتی الحیتان فی الماء وفضل العالم علی العابد کفضل القمر علی سائر الکواکب، إن العلماء ورثۃ الأنبیاء، إن الأنبیاء لم یؤرثوا دیناراً ولا درہما، إنما ورثوا العلم فمن أخذ بہ أخذ بحظ وافر) ابو داؤد (3741) ترمذی (2882)حدیث کا آخری ٹکڑا یہ ہے کہ بیشک علماء انبیاء کے وارثین ہیں، یقینا انبیاء دینار اور درہم وراثت میں نہیں چھوڑتے، بیشک وہ علم وراثت میں چھوڑتے ہیں تو جس نے اسے لیا، بھرپور لیا۔

پہلی بات یہ کہ یہ حدیث قرآنی آیات کے خلاف نظر آتی ہے اور متفقہ اصول یہ ہے کہ جہاں قرآن واضح ہو وہاں گرچہ حدیث صحیح ہو حدیث کو چھوڑ دیا جائے گا۔ حدیث کہتی ہے کہ انبیاء درہم ودینار ورثہ میں نہیں چھوڑتے جو بالکل غلط ہے۔ سورہ نمل میں آیت نمبر 16/ میں ہے: وورث سلیمان داؤد اور سلیمان داؤد کے وارث ہوئے۔ حضرت سلیمان کو وراثت میں اپنے باپ کی بادشاہت ملی، چنانچہ الکشاف میں مذکور ہے کہ یہاں وراثت سے مراد سلطنت اور پیغمبری ہے (الکشاف جلد 3، صفحہ 140، تفسیر خزان) سورہ ص میں آیت نمبر 30/ میں ہے: ووہبنا لداؤد سلیمان، نعم العبد، إنہ أواب، إذ عرض علیہ بالعشی الصافنات الجیاد فقال إني أحببت حب الخیر عن ذکر ربي حتی توارت بالحجاب. یہاں جن گھوڑوں کا ذکر ہے وہ حضرت سلیمان کو وراثت میں ملی تھیں، تفسیر المدارک جلد 4/ صفحہ 39 پر لکھا ہے کہ جمہور کا اتفاق ہے کہ حضرت سلیمان پر جو گھوڑے پیش کیے گئے وہ ان کو اپنے والد سے ورثہ میں ملے تھے۔ سورہئ مریم میں آیت نمبر 5/ اور 6/ میں ہے، حضرت زکریا دعا کرتے ہیں: فہب لي من لدنک ولیا. یرثني ویرث من آل یعقوب ابن جریر طبری لکھتے ہیں کہ اس آیت کا مطلب یرثنی یرث مالی ہے، یعنی وہ میرا اور میرے مال کا وارث ہو گا۔

 تفسیر کشاف میں ہے کہ یعقوب کے گھر کا وارث ہو گا کا مطلب ہے کہ بنی ماثان کی سلطنت کا وارث ہو گا۔ الکشاف جلد 4/ صفحہ 503 میں لکھتے ہیں کہ اس کا مطلب ویرث من آل یعقوب الملک ہے۔ قرآن پاک کی یہ آیتیں واضح طور پر بتا رہی ہیں کہ انبیاء نے وارثت میں دولت اور سلطنت چھوڑی۔ اس لیے اس حدیث میں کہ انبیاء درہم ودینار وراثت میں نہیں چھوڑتے قرآن کی ان آیتوں کے بالکل خلاف ہے، لہٰذا اس حدیث کو ماننا صحیح نہیں ہو گا۔ جہاں تک حضور اقدسﷺ کی وراثت کا سوال ہے تو آپﷺ نے اپنی وفات کے بعد جو وراثت چھوڑی وہ سب صدقہ تھا، اس سے یہ بات قطعی ثابت نہیں ہوتی کہ انبیاء کی وراثت میں علم ہوتا ہے دینار ودرہم یا دنیاوی مال واسباب نہیں۔ چنانچہ بخاری کی حدیث ہے: ما ترک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عند موتہ دیناراً ولا درہماً ولا عبداً ولا أمۃ ولا شیئاً إلا بغلتہ التي کان یرکبہا وسلاحہ وأرضاً جعلہا لابن السبیل صدقۃ (بخاری)۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی موت کے وقت نہ دینار، نہ درہم، نہ غلام نہ باندی اور نہ کچھ چھوڑا سوائے اس خچر کے جس کی آپ سواری کیا کرتے تھے اور اپنا اسلحہ اور زمین جس کو مسافروں کے لیے صدقہ کر دیا۔ حضور ﷺ نے دولت وثروت کو صدقہ دینے کا حکم فرمایا اس کی وجہ یہ تھی کہ لوگ یہ نہ کہیں کہ نبیﷺ نے دولت جمع کر کے اپنی آل واولاد کو دے دی۔ وراثت میں زمین، اسلحہ، خچر وغیرہ چھوڑا۔ لہٰذا اوپر والی حدیث کہ انبیاء درہم ودینار نہیں چھوڑتے، صحیح معلوم نہیں ہوتی۔

یہی وجہ ہے کہ ایک دوسری حدیث بخاری شریف میں ہی ہے کہ حضرت فاطمہ حضرت ابوبکر کے پاس جاتی ہیں اور حضور ﷺ کی وراثت میں اپنا حق مانگتی ہیں مگر حضرت ابوبکر فرماتے ہیں کہ نبیﷺ کے حکم کے مطابق نبی کی وراثت صدقہ میں جائے گی اور حضرت فاطمہ ناراض ہو کر واپس چلی آتی ہیں اور مرتے دم تک حضرت ابوبکر سے بات نہیں کرتیں۔ آخر نبیﷺ نے وراثت میں کچھ چھوڑا ہی نہیں تو حضرت فاطمہ ناراض کیونکر ہوئیں۔ اس سے یہ بات متحقق ہو جاتی ہے کہ انبیاء وراثت میں درہم ودینار یعنی دنیاوی مال واسباب چھوڑتے ہیں۔دوسر ی طرف خود اس حدیث کی صحت کے بارے میں محدثین کے درمیان کافی اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس حدیث کے راویوں قیس بن کثیر اور دیگر راویوں کے متعلق بعض مجہول اور بعض ضعیف قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ دار قطنی، ابن حبان وغیرہ کے نزدیک یہ حدیث ضعیف ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس حدیث کی بنیاد پر جس میں محدثین کی رائے مختلف ہو اور جس کو بعض نے ضعیف بھی قرار دیا ہے، کیسے قرآنی آیات کے سامنے صحیح قرار دیا جا سکتا ہے جب کہ قرآنی آیات بالکل واضح ہیں۔

پھر اگر تھوڑی دیر کے لیے یہ تسلیم کر لیا جائے کہ العلماء ورثۃ الأنبیاء کی حدیث صحیح ہے تو پھر کیا علماء وارثین نبوت کیسے ہو سکتے ہیں، جب کہ اس میں علماء دین کی تخصیص نہیں کی گئی ہے۔ اس حدیث کی بنیاد پر تمام علوم کے علماء انبیاء کے وارثین ہوئے۔ حضرت نوح کے بارے میں قرآن پاک میں آتا ہے: ویضع الفلک وکلما مر علیہ ملأ من قومہ سخروا منہ (ھود) حضرت داؤد کے متعلق آیت ہے: ولقد آتینا داؤد منا فضلاً یا جبال أوبي معہ والطیر والنا لہ الحدید. (سباء) حضرت موسیٰ کے بارے میں قرآن کہتا ہے: قال ہي عصاي أتوکؤ علیہا وأہش بہا علی غنمي (طہ) حضرت نوح نجار بڑھی تھے، حضرت ادریس خیاط درزی تھے، حضرت ابراہیم کپڑوں کے تاجر تھے، حضرت داؤد اسلحہ بناتے تھے، حضرت موسیٰ بکریاں چراتے تھے، حضرت الیاس نساج بنکر تھے۔ تو کیا یہ سارے پیشے اور ان سے متعلقہ علوم انبیاء کی وراثت میں شامل نہیں؟ اگر شامل ہیں تو یہ سارے علوم کے ماہرین بھی وارثین انبیاء میں کیونکر داخل نہیں ہیں؟تو ثابت یہ ہوا کہ علماء پہلی بات کہ وارثین نبوت نہیں ہیں وہ حدیث ہی صحیح نہیں ہے اور اگر ہیں تو اکیلے نہیں بلکہ تمام علوم کے ماہرین انبیاء کے وارثیں ہیں اور یہ زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad