تازہ ترین

جمعرات، 19 جون، 2025

معاشرے کے نوجوانوں کی غیرت !!

معاشرے کے نوجوانوں کی غیرت !! 
از قلم: *عکرمہ سلیمان قاسمی فرخ آبادی*
(تکمیل ادب دارالعلوم دیوبند) 

ہمارے معاشرے کے نوجوانوں اور مردوں کی مردانگی کا عالم یہ ہے کہ وہ شادی کے بعد جس طشت میں کھانا تناول فرماتے ہیں یا جس کوزے میں مشروبات نوش فرماتے ہیں یا جو بھی برتن استعمال کرتے ہیں وہ سب ان کی بیوی اپنے گھر سے لائی ہوتی ہے، اسی طرح وہ آرام دہ بیڈ، کولر کی ٹھنڈی پرسکون فضاء، فریج کا ٹھنڈا پانی حتی کہ چادر تکیہ اور پنکھا سب اسی لڑکی کے والد کا دیا ہوتا ہے، اگر غور کیا جائے تو شاید کمرے یا گھر کی چہار دیواری کے سوا سب لڑکی کے باپ کا ہوتا ہے۔

چنانچہ یہ چیز خیال سے پرے ہے کہ کوئی شخص کسی کے اتنے احسانات تلے دبا ہو کہ کھانے پینے، لیٹنے سونے، چلنے پھرنے ہر چیز میں بیوی کا محتاج ہو پھر وہ اس سے بدتمیزی بھی کرے، اس کو شان دکھائے، اس کے ساتھ زد و کوب کرے، یا یہ جملے استعمال کرے کہ تمہارا باپ مجھے یہ سب دیکر اپنے اشاروں پہ نچانا چاہتا، مجھے اپنے حکم کا پابند بنانا چاہتا ہے؟ میں جاکر یہ سامان واپس کر آؤنگا!


تو ان سراپا غیرت مردوں سے میرا جواب ہے کہ جی ہاں! اس کے باپ نے تم کو خریدا ہے اب تم کو اس کی بیٹی کے احکام کا پابند ہونا ہوگا اور سسرال کا مرہون منت، مشکور و ممنون ہونا پڑے گا اور اگر آپ کی غیرت کے سمندر میں واقعتاً یہی تموج تھا تو لینے سے پہلے انکار کرنا چاہیے تھا، وہاں اپنی غیرت کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا تاکہ آپ کی شوہرانہ شان باقی رہتی اور آپ شان سے اپنی بیوی سے کہتے "میں تمہارا سہارا ہوں تمہاری عصمت کا محافظ اور نگہبان ہوں" جب کہ صورت حال یہ ہوتی ہے کہ بیوی کہے "میں تمہارا سہارا ہوں" سب کچھ ہمارا ہے تم تو دست نگر، مفلس و قلاش تھے۔

یہ بات غور طلب ہے کہ جو مفاسد ربا اور سود کی حرمت میں کارفرما ہیں کیا وہ اب جہیز میں موجود نہیں ہیں؟

جس طرح سود کی حرمت کا بنیادی عنصر یہ ہے کہ ایک مالدار سیٹھ کسی ضرورت مند کو قرض دیتا ہے اور پھر اس پہ زائد منافع وصول کرتا ہے جبکہ وہ نادار پہلے ہی اس قدر مال کا مالک نہیں تھا کہ اپنی ضرورت پوری کرسکتا چہ جائیکہ اب اس سے زائد ادا کرے اور اب قرض لیکر مزید بوجھل اور پریشان ہوگیا یوں ایک شخص بیٹھے بیٹھے بلا عوض کسی کی خون پسینے کی گاڑھی کمائی کھا گیا۔ عین اسی طرح ایک بیٹی کا باپ بھی از سر تا پا قرض لیکر ہمارے معاشرے کے نوجوانوں کی مفت خوری کی بھوک مٹاتا ہے اور نوجوان بیٹھے بٹھائے ایک انسان کی کمر قرض کے بوجھ سے جھکا دیتا ہے کہ ساری زندگی وہ اور اس کے نو عمر بچے چند ٹکے کماکر قسطیں بھرتے رہتے ہیں۔

 بیٹی کا باپ ہونا گویا کوہِ گراں ہے جس کا بار ایک انسانی جان اٹھانے سے قاصر ہے مگر اٹھاتی ہے۔
وہ ہمارے معاشرے کے نوجوان کی قیمت ادا کرکے اپنی بیٹی کے لیے خرید لیتا ہے، آپ مجھے بتائیے کیا کسی خرید کردہ شخص کو اپنے مالک یا مالکہ سے افف کہنے کی گنجائش ہے؟ مگر پھر بھی ہمارے نوجوان نہ صرف خریدنے والی مالکن (بیوی) سے گالی گلوج کرتے ہیں بلکہ بسا اوقات زد و کوب بھی کرتے ہیں۔ اولا تو یہی خلاف ضابطہ ہے اس پہ مستزاد یہ کہ آپ اپنی مالکن سے بد سلوکی کر رہے ہیں جس نے آپ کو کھانے کے برتن اور لیٹنے کی چادر تکیہ سے لیکر سواری تک دی ہے۔

خلاصہ یہ کہ اگر آپ جہیز لیکر بھی شوہریت کے خمار میں ہیں تو یاد رکھیے آپ بکے ہوئے انسان ہیں جس کے بعد آپ کو اپنے خریدنے والے کا وفادار رہنا ہوگا، رہا شوہریت کا رتبہ تو اس کا آپ پہلے ہی سودا کرچکے۔

 آپ یاد رکھیے!
خدا نخواستہ آپ نے اگر یہ جرم کیا ہے تو خدا آپ کو بھی اسی راہ سے گزارے گا، آپ کو بھی بیٹی کا باپ بنائے گا اور چونکہ آپ نے جہیز لیکر اپنے نفس کو فروخت کرکے اپنی تہذیب و ثقافت اور معاشرے کا ماحول ہی بدل دیا ہے تو آپ کی بیٹی کے لئے بھی آپ کو  کوئی غیرت مند مرد ملنے والا نہیں وہ بھی آپ کے بگاڑے ہوئے اسی معاشرے کا حریص مرد ہوگا۔

نتیجہ یہ ہوگا کہ آپ عبادتوں، دعاؤں کے بعد بیٹی کی شکل میں اولاد پائیں گے پھر اپنی مالکن (بیوی) سے لڑکی کی پیدائش پہ بدسلوکی بھی کرینگے اور اپنی زندگی چند پیسے بچانے میں گزارنے لگینگے، دو ٹکے کماکر آدھا حصہ ذخیرہ اندوزی کی نذر کرینگے، پھر خدا آپ کو بیٹا دیگا جس کے بڑے ہونے کا آپ شدت سے انتظار کرینگے پھر بجائے اس کے کہ آپ اس کی تعلیم و تربیت کا نظام کرتے اس کو علم و آگہی کی دولت سے آراستہ کرتے آپ اس سے ریڑھی کھچوائیں گے، 

مزدوری کروائیں گے، آٹو رکشہ چلائیں گے، وہ معصوم بچہ جس کی کھیلنے کودنے اور تعلیم حاصل کرنے کی عمر تھی وہ آپ کے جرائم کا انجام بھگت رہا ہے تاکہ چند پیسے جمع کرکے گھر میں لاکر دے کیونکہ معاشرہ گندہ کرنے اور جہیز کی لعنت کو فروغ دینے میں آپ کا بھی بڑا حصہ ہے۔

میں نے دیکھا ہے گھر میں تین بیٹیاں ہیں تو باپ سمیت تین / چار بھائی بس اسی تگ و دو میں مصروف ہیں کہ کیسے اس کے اچھے جہیز کا انتظام کیا جائے اور خوشی خوشی رخصت کردیا جائے۔

آپ غور کیجیے معاشرے کی یہ کیسی گندی صورت حال ہے، اگر اس پہ قدغن نہ لگا تو کتنے ہی زیادہ بچے تعلیم، شعور اور اچھی تربیت سے محروم ہوجائیں گے اور بننے سنورنے کی عمر میں چند ٹکے کمانے میں لگ جائیں گے، اگر یہی رواج ایک صدی رہے تو دو نسلوں کے بعد بس جہالت ہی جہالت ہوگی۔ 

اور پھر  اتنا جہیز دینے اور موت تک کے لیے مقروض ہونے کا نتیجہ اتنا بھی نہیں نکلتا کہ شوہر اپنی بیوی کا اکرام و احترام کرے اس کو بھی انسان سمجھے، اس سے بد تمیزی نہ کرے، زبان سے کچھ بولنے سے قبل سوچے کہ اس کے پہلو میں بھی دل ہے۔

جب تک ہر شخص محاسبۂ نفس کرکے اس لعنت کو ختم کرنے کا ارادہ نہیں کرے گا تب تک گمراہ معاشرہ راہ یاب نہیں ہوگا، آپ کی کمر قرض ادا کرتے جھک جائے گی آپ کے چھوٹے بچے پونجی جمع کرنے میں لگ جائیں گے۔

لوگوں سے اگر سوال کیا جائے تو بڑی شان سے کہتے ہیں کہ ہم نے خود اپنی بیٹی کو جہیز دیا تھا تو اب ہم اپنے بیٹے کے لیے بھی لینگے۔ میں ان سے پوچھتا ہوں یہ کس جہان کا دستور ہے کہ آپ کی جیب اگر کوئی کاٹ لے تو پھر آپ کسی دوسرے کی جیب پہ ہاتھ ماردیں؟

میری دانست میں ایسے سینکڑوں گھرانے ہیں جنہوں نے ایک بیٹے کی شادی کی اس کے جہیز کی پیکنگ کھولنا تک نصیب نہیں ہوئی کیونکہ گھر چھوٹا یا سامان رکھنے اور استعمال کرنے کے لائق نہیں پھر اپنے دوسرے بیٹوں کی شادی میں مزید جہیز لیا اور اپنے  گھر کو واشنگ مشین، فریج، کولر وغیرہ کا گودام بنا لیا جو ڈبوں میں پیک بارش کے پانی سے گل رہے ہیں ان کے استعمال کا نہ سلیقہ ہے نہ شعور، وہ جو کچھ انہوں نے وصول کیا ہے سب بلا استحقاق اور ان کی بساط سے زیادہ ہے۔

کیا لڑکے کا باپ ہونا اعزاز ہے؟ اور لڑکی کا باپ ہونا باعث خواری ہے؟

اگر ایسا ہے تو آپ اپنے ایمان کو تلاش کیجیے کیونکہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ایک بڑا انقلابی دور حقوق نسواں کی بحالی اور ان کو انسانی درجہ دلانے، حرام خوری کی شناعت بیان کرنے کسی کو بے جا مشقت میں ڈالنے اور رواداری، ترحم اور نرمی کی نشر و تبلیغ میں صرف ہوا ہے۔

یہ تو ہندوؤں کا دستور ہے کہ وہ بیٹی کو نحوست سمجھتے ہیں اور اگر کوئی ان کی بیٹی کو بیاہ کر لے جا رہا ہے تو اس کو کچھ خیرات  دے دیتے ہیں، جس طرح قدیم دور میں گھر سے غلاظت صاف کرکے لے جانے والے بھنگی کو لوگ گندگی لے جانے پہ کچھ جل پان کرادیتے تھے۔

معاشرہ آپ کا ہے آپ بذات خود ایک تاریخ ہیں، آپ کے معاشرے اور دور کی تاریخ میں اور سوسائٹی کلچر کی تعمیر میں آپ کا حصہ ہے اب آپ کا ضمیر یہ فیصلہ کرے گا کہ آپ تاریخ کے اوراق پہ کیسے نقوش دیکھنا چاہتے ہیں، ہر شخص اگر اپنی برادری، گھر، خاندان اور رشتے داری سے اس نحوست اور مجرمانہ عمل کا خاتمہ کرے تو ان شاء اللہ اگلی نسل درست راہ پہ گامزن ہوگی اور یہ لعنت دو نسلوں کے بعد نا پید ہوجائے گی۔

اس کے لیے بنیادی چیز اپنے اندر سے حرص و طمع، لالچ اور مفت خوری کی عادت کو ختم کرنا ہوگا، دوسروں کی مشقتوں کو اپنے اوپر محسوس کرنا ہوگا اس، میں سب سے کارآمد عنصر یہ ہوگا کہ آپ کو خدا کا خوف رہے اس کی گرفت کا دھڑکا رہے کہ اگر آج آپ کسی پہ بے جا مشقت مسلط کر رہے ہیں تو کل آپ کی گردن نپنے کی باری ہے اور آپ کو خدا کی گرفت سے مفر نہیں ہوگی۔

لمحہ فکریہ بھی ہے اور المیہ بھی کہ ہمارے علماء اور نوجوان فضلاء اس لعنت اور جرم کے مرتکب ہیں، ان کے پاس تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی دولت ہے، رحمتِ عالم کہی جانے والی عالی مرتبت شخصیت کے احوال اور مجاہدانہ زندگی کے درخشاں پہلوؤں سے واقفیت ہے، حرام خوری و مفت خوری، ایذا رسانی اور دوسروں کو موت کے منہ میں ڈھکیلنے کی شناعت اور وعیدوں کا علم ہے۔

کوشش کی جائے اگر آپ کے پاس قرآن وسنت کا علم ہے تو آپ معاشرے کی تبدیلی شروع کریں اور لوگوں کے سامنے گفتار سے بڑھ کر کردار پیش کریں!!

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad