نئی دہلی(یواین اے نیوز 7 اپریل2020)پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے قومی چیئرمین او ایم اے سلام نے ہندوستان کی مختلف ریاستوں کے خدّام صحت اور ریاستی حکّام کی لوگوں کی جانیں بچانے کی بے لوث خدمات کو سراہا، جنہوں نے کورونا کی وبا کو پھیلنے سے روکنے میں اہم کردار ادا کیا۔کئی ترقی یافتہ یوروپی ممالک کے مقابلے میں، ہندوستان کافی بہتر طریقے سے اس وبا کو پھیلنے سے روکنے اور شرح اموات کو کم کرنے کے لئے کام کر رہا ہے۔ یہ ملک کے شہریوں کے لئے بڑی راحت کی بات ہے۔ حکّام، پولیس اور خدّام صحت کے تعاون اور بروقت کاروائی نے حالات پر قابو پانے میں بڑا رول ادا کیا ہے۔پورا ملک اپنے ان خادمین صحت کا مقروض ہے، جنہوں نے دوسروں کی جان بچانے کے لئے اپنی جان داؤ پر لگا دی۔
تاہم ہمارا مستقبل اس پر منحصر ہے کہ لوگ احتیاطی تدابیر اختیار کرنے اور سماجی دوری بنائے رکھنے میں حکّام کے ساتھ کتنا تعاون کرتے ہیں۔ چند افراد کی لاپرواہی کے نتائج پورے معاشرے میں اس وبا کے پھیلنے کا سبب بن سکتے ہیں، جو کہ ہندوستان جیسے گھنی آبادی والے ملک کے لئے بے حد خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔دریں اثناء ملک میں کورونا کی جانچ کی تعداد بہت کم ہے۔ بڑی تیزی سے زیادہ سے زیادہ جانچیں کرنے کی اشد ضرورت ہے، خاص طور سے گھروں اور ہسپتالوں میں دیکھ ریکھ میں رکھے گئے لوگوں کی جانچ تیزی سے ہونی چاہئے۔ تبھی جاکر ہم یہ پتہ لگا پائیں گے کہ یہ وائرس آبادی میں کتنا زیادہ پھیلا ہے۔
ایسی پریشان کن خبریں آ رہی ہیں کہ کورینٹین کئے گئے لوگوں کو بھی کورونا پازیٹیو مریضوں کے ساتھ رکھا جا رہا ہے اور ان کی جانچ بھی نہیں کی جا رہی ہے۔ ایک اور سنگین معاملہ یہ ہے کہ درجنوں خدّام صحت مریضوں کی خدمت کرتے ہوئے کورونا سے متاثر ہو گئے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ انہیں ضروری حفاظتی آلات فراہم نہیں کئے جا رہے ہیں۔ خدّام صحت کی حفاظت کی ایسی بری صورتحال، کورونا وائرس کے خلاف ہماری ساری لڑائی کو مٹّی میں ملا سکتی ہے۔
اس کے علاوہ ملک میں ایک اور خطرناک رجحان چل رہا ہے۔ ایک طرف ہمارا ملک اس وبا سے لڑ رہا ہے، اور دوسری طرف فرقہ پرست طاقتیں ان حالات کا استعمال ملک میں فرقہ پرستی اور آبادی کے بڑے حصے کے خلاف نفرت پھیلانے کے لئے کر رہی ہیں۔ فرقہ پرست طاقتیں نظام الدین مرکز کی مسجد اور تبلیغی جماعت کو ظالمانہ طریقے سے نشانہ بنا رہی ہیں اور ان پر بیماری کو پھیلانے کا الزام لگا رہی ہیں۔ متعدد میڈیا گھرانوں کے ذریعہ عام کی گئی اسلام مخالف باتوں نے حالات کو بد سے بدتر بنانے کا کام کیا ہے۔ اس نفرت انگیز پروپگنڈے کی وجہ سے مسلمانوں پر حملے کئے جانے کی خبریں بھی آئی ہیں۔ چند ریاستی حکومتوں نے اس نفرت انگیز مہم کے خلاف بیان جاری کئے ہیں، لیکن یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ وزیر اعظم اس مسئلے پر خاموش ہیں۔ ہم مرکزی و ریاستی حکومتوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ مسلم مخالف پروپگنڈہ چلانے والے سبھی میڈیا گھرانوں اور سوشل میڈیا پر نفرت پھیلانے والے افراد کے خلاف سخت کاروائی کریں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں