لکھنؤ (یواین اے نیوز 19فروری2020)بھارتی وزیر کے مطابق چار گائے پال کر ان کے گوبر اور پیشاب سے ایک سال میں بیس لا کھ روپے کمائے جاسکتے میں بیروزگاری ختم کرنے کا یا نادر مشورہ حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے سینئر رہنما اور مویشی پروری کے مرکزی وزیر گری راج سنگھ نے دیا ہے۔ بھارتی ریاست اتر پردیش میں ایک کواپریٹیو بینک کی نئی شاخ کا افتتاح کرتے ہوئے کہا، ”جانور پالنا بڑا روز گار ہے نریندر مودی کی قیادت میں بھارت ترقی کی شاہراہ پر تیزی سے گامزن ہے، اب تو آپ چار گائے پال کر ان کے گوبر اور پیشاب سے سال بھر میں بیس لاکھ روپے کما سکتے ہیں، وزیراعظم مودی کے وزیر گری راج نے اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا.”دودھ کی ضرورت بہت ہے۔ دودھ کا منافع تو الگ ہے جب کہ ایک کلوگوبر سے بھی بیس روپے کمائے جاسکتے ہیں۔
لیکن کچھ لوگ میرے اس بیان پر کہیں گے کہ گری راج پاگل ہے۔ انہوں نے کوآپریٹو بینکوں کو مشورہ دیا کہ وہ کسانوں کو منافع کے طور پر نقد رقوم کے بجائے بچھڑا اور چاره دیں،گری راج سنگھ کا مزید کہنا تھا ملک میں کھانا تو سب چاہتے ہیں لیکن کھیتی باڑی کوئی نہیں کرنا چاہتا۔ آج کھیتی باڑی منافع کا سودا نہیں رہ گیا ہے لیکن نریندر مودی حکومت اسی کھیتی باڑی کو منافع کی طرف لے جانے کی کوشش کر رہی ہے۔ بی جے پی رہنما نے بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا: اگر نہرو تجارت میں طویل عرصے تک رہتے تو یہاں مویشی پروری اور ماہی پروری جیسے کاروبار کی صورت حال کافی خراب ہوجاتی۔ خیال رہے کہ مودی حکومت کی طرف سے بھارت کے تمام مسائل اور پریشانیوں کے لیے کانگریس پارٹی اور سابق وزیر اعظم جواہر لال نہرو کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ مرکزی وزیر گری راج سنگھ اپنے متنازع بیانات کے لیے بھی مشہور ہیں۔
گذشتہ دنوں انہوں نے معروف اسلامی درسگاہ دارالعلوم دیوبندکو دہشت گردی کا منبع قراردیا تھا۔ اس بیان پر بی جے پی کے صدر بے پی نڈانے ان کی سرزنش کی اور اس طرح کے بیانات سے پرہیز کرنے کا مشورہ دیا تھا۔گائے کے گوبر اور پیشاب کے متعلق ہندو قوم پرست لیڈروں کے بیانات کے ساتھ ساتھ نریندر مودی حکومت بھی اس معاملے میں کافی سنجیدہ دکھائی دیتی ہے۔مودی حکومت گائے کے گوبر اور پیشاب سے نئے پروڈکٹ بنانے پر خاصا زور دے رہی ہے۔ اس مقصد کے لیے اس نے گزشتہ برس راشٹریہ دھینو آیوگ (قومی گائے کمیشن) قائم کیا تھا کمیشن گائے کے گوبر اور پیشاب کے طبی اور زرعی استعمال کو فروغ دینے پر غور کر رہا ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں