دیوبند:دانیال خان(یواین اے نیوز 10فروری2020)قومی شہریت ترمیمی قانون،این پی آر اورمجوزہ این آر سی کے خلاف متحدہ خواتین کمیٹی کے زیر اہتمام دیوبند کے عیدگاہ میدان میں خواتین کا غیر معینہ دھرنا گزشتہ 27جنوری سے بد ستور جاری ہے۔جیسے جیسے دن گزرتے جا رہے ہیں ویسے ویسے خواتین کے ستیہ گرہ میں مزید پائیداری آتی جا رہی ہے،ہر روز دھرنے میں ہزاروں کی تعداد میں مرد و خواتین،بچے،بوڑھے اور جوان دیر رات تک موجود رہتے ہیں،ساتھ ہی ہر روز خواتین کے ذریعہ کہیں نہ کہیں سے کینڈل جلوس بھی نکالا جاتا ہے۔اسی تناظر میںحسب معمول آج پھر سے خواتین نے ہاتھوں میں پلے کارڈ لے کر زبر دست احتجاج کرتے ہوئے سیاہ قانون کے خلاف نعرے لگائے اور کہا کہ جب تک مرکزی حکومت ان سیاہ قوانین کو واپس نہیں لے لیتی تب تک ہمارا پر امن مظاہرہ جاری رہیگا،خواتین نے یہ بھی کہا کہ اس ایکٹ کی واپسی کے لئے اگر ہماری جان بھی جائے گی تو اس کی قطعی پرواہ نہیں کی جائے گی۔
خواتین کے غیر معینہ دھرنے کو مسلسل مختلف تنظیموں اور لیڈران کے ذریعہ حمایت دینے کا سلسلہ بھی جاری ہے اسی ضمن میں صبح کے وقت ـCOMMUNIST PARTY OF INDIA (MARXIST)کے کارکنان پارٹی کے علاقائی کنوینر کیلاش،راجیندر،سونو کمار،وجے اور سبھاش کی قیادت میں بڑی تعداد میں جمع ہوکر دھرنا گاہ پر پہنچ گئے اور دھرنا دینے والی خواتین کو کو حمایت دینے کا اعلان کیا۔اسکے علاوہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی طالبات زینب صابری اور روہینہ نے بھی خواتین کی تحریق کو اپنی حمایت اور بھر پور تعاون دینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ 1955میں شہریت ترمیمی ایکٹ بل لایا گیا تھا،اس وقت سردار ولبھ بھائی پٹیل نے اس کی تائد کی تھی،بعد ازاں 1984میں اس میں ترمیم کی گئی تاہم اس قانون میں کہیں پر بھی مذہب کے نام امتیاز نہیں کیا گیا اور اب اچانک 2019میں بی جے پی حکومت نے اس بل کو قانون میں تبدیل کیا اور جبرا عوام پر مسلط کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ سیاہ قوانین صرف اور صرف غریبوں کے لئے ہیں۔ انہوںنے کہا کہ گزشتہ ڈیڈھ ماہ سے پورے ملک میں احتجاج ہو رہا ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ حکومت خاموش بیٹھی ہوئی ہے اور عوام کی آواز کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے لیکن ملک کی امن و انصاف پسندعوام فرقہ پرست طاقتوں کے خلاف جد و جہد کا آغاز کر چکے ہیں یہی وجہ ہے حکومتوں میں لرزہ طاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ مرکزی حکومت کا کہنا ہے کہ ابھی این آر سی کو ملک میں نافذ نہیں کیا جائے گا لیکن حکومت جب تک اس قانون کو پوری طرح سے ختم نہیں کر دیتی تب تک ہمارا یہ احتجاج جاری رہے گا۔متحدہ خواتین کمیٹی کی صدر آمنہ روشی،فوزیہ سروراور سلمہ احسن نے کہا کہ احتجاج میں صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ تمام مذاہب کے ماننے والے حصہ لے رہے ہیں،انہوں نے کہا کہ سیاہ قوانین کے خلاف ملک بھر میں احتجاج جاری ہے اب عوام پیچھے ہٹنے والے نہیں ہے لہذا حکومت فی الفور سیاہ قوانین سے دستبردار ہو جائے،انہوں نے کہا کہ زمین و آسمان کا مالک سب سے بڑا حکمران ہے،اس کی پکڑ بڑی سخت ہے۔عرم عثمانی،رابیہ،انوری اور جمیلہ نے کہا کہ یہ خدشات بھی ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ انڈیا میں یہ قانون مسلمانوں کے ساتھ دوسرے مذاہب کے غریبوں کو متاثر کرے گا اور انھیں بھی فارن ٹریبونل کے چکر لگانے پڑ سکتے ہیں لیکن ان کے لیے یہ تدارک ہے کہ وہ اپنی مذہبی شناخت کی وجہ سے شہریت کے اہل قرار پائیں گے۔
انھوں نے حکومت پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ صرف پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے ہی پناہ گزینوں کو کیوں یہ سہولت دی جا رہی ہے۔ اس میں سری لنکا، چین، میانمار کے لوگ کیوں شامل نہیں ہیں۔ خدیجہ،زینب عرشی،آفرین اور صبیحہ شاہین نے شہریت ترمیمی قانون کے نفاذ پر اپنے شدید غم و غصہ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مرکزی حکومت مذہب کی بنیاد پر شہریت دینے کا فیصلہ کرتے ہوئے مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کر رہی ہے کیونکہ مسلمانوں کو اس قانون سے باہر رکھا گیا ہے،انہوں نے کہا کہ ملک کی آزادی کے لئے ہزاروں علماء اور بے شمار مسلمانوں نے اپنی جانوں کی قربانیاں دیںلیکن موجودہ نریندر مودی حکومت سی اے اے اور این آر سی کے ذریعہ ملک میں شہریت ثابت کرنے کے لئے کاغزات پیش کرنے کے نام پر مسلمانوں اور کمزور طبقات کو غیر ملکی قرار دینے کی کوششوں میں مصروف ہے حکومت کے اس طرح کے اقدامات کو برداشت نہیں کیا جا سکتا۔

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں