از قلم: محمد فرقان (ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)
سیاست کی موجوں سے مایوس نہ ہو فرقاں
گرد آب کی ہر تہہ میں ساحل نظر آتا ہے
جیسا کہ ہم سب اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ ملک کا چپہ چپہ سی اے اے، این آر سی اور این پی آر جیسے سیاہ قوانین کیلئے خلاف سراپا احتجاج ہے۔مشرق سے لیکر مغرب تک شمال سے لیکر جنوب تک سیکولرازم اور جمہوریت کے پاسبان اس غیر آئینی قوانین کے خلاف آواز بلند کررہے ہیں۔وطن کی دوسری جنگ آزادی کا آغاز ہوچکا ہے، ہر طرف ہر جگہ آزادی اور انقلاب کے نعرے گونج رہے ہیں۔ ملک ہند کے غیور باشندے کئی طریقوں اور کئی شکلوں میں ملک کی ظالم حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہرے کررہے ہیں۔ جس میں سرفہرست 24x7 مسلسل احتجاج کا سلسلہ ہے۔ جو بہت زیادہ مؤثر اور اثر انداز محسوس ہورا ہے۔ جس کی شروعات دہلی کے جامعہ نگر میں واقع شاہین باغ میں خواتین کی جانب سے ہوئی۔انکی جرأت، ہمت، استقامت اور بہادری کی وجہ سے ملک تو ملک بیرون ملک تک انکی آواز گونج رہی ہے۔ جس سے حکومت کے ایوانوں میں زلزلہ برپا ہوتا نظر آرہا۔ یہی وجہ ہے کہ شاہین باغ کی آواز کو اب حکومت دبانے کی کوشش کررہی ہے۔ان کیلئے شاہین باغ ایک سر درد بن چکا ہے کیوںاسکے ذریعہ پورے عالم میں حکومت کی غلط پالیسیوں کا پردہ فاش ہوتا جارہا ہے۔
ہمارے وطن عزیز کے باعزت شہریوں اور سیکولر مزاج طبقے نے مسلسل احتجاجی دھرنے کے فوائد کو مدنظر رکھتے ہوئے ملک کے گوشے گوشے میں شاہین باغ کے طرز پر مسلسل احتجاجی مظاہروں کی شروعات کرتے ہوئے ملک کے کئی علاقوں میں شاہین باغ کو قائم کیا ہے۔ بنگلور میں بھی ناچیز کے علاوہ ایک بڑی تعداد اس مہم کے آغاز ہونے کے خوائش مند ہیں۔ کئی مشوروں میں باضابطہ اس پر غور و فکر بھی ہوا۔الحمدللہ شہر گلستان بنگلور میں شہریت ترمیمی قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف اب تک دو سو سے زائد احتجاجی مظاہرے بھی منعقد ہوچکے ہیں۔ اسی کے ساتھ ایک دو دنوں کا دھرنا بھی دیا جا چکا ہے۔ اب وہ وقت آچکا ہیکہ جب بنگلور میں بھی ایک شاہین باغ قائم کیا جائے۔ کیونکہ جب ہندوستان کے بڑے شہروں کا نام لیا جاتا ہے تو اس میں ہمارے شہر گلستان بنگلور سرفہرست ہوا کرتا ہے۔ اسے کہیں ''Silk City'' تو کہیں''IT HUB'' کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔جسکی وجہ سے اپنے اندر ایک نمایاں کردار رکھنے والے ایسے بڑے شہر میں شاہین باغ کا قائم ہونا ضروری ہی نہیں بلکہ لازم ہوجاتا ہے۔ اس موضوع پر پچھلے دنوں کرناٹک کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی جانب سے پریس کانفرنس بھی ہوئی تھی اور یہ کہا گیا تھا کہ بنگلور میں شاہین باغ بنانے کی تیاریاں ہورہی ہیں۔ اسی کے پیش نظر ناچیز کچھ گزارشات اور کچھ تجاویز پیش کررہا ہے جو مسلسل دھرنے کی شروعات اور اسے کامیابی تک پہنچانے کیلئے مفید ثابت ہوں گیں۔
اسے ناچیز نے جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے کچھ اراکین اور دیگر معزز حضرات کے درمیان پیش بھی کیا تھا جس پر انہوں نے غور کرنے کا وعدہ کیا تھا! الغرض چلئے کچھ قیمتی باتوں پر نظر ڈالتے ہیں۔ہم سب بخوبی واقف ہیں کہ بنگلور ایک شہر ہے اور شہر کے اکثر باشندے یا تو اپنے کام و کاج، نوکری اور کاروبار میں مصروف ہوتے ہیں یا تعلیم و تعلم میں مشغول رہتے ہیں۔ جن میں کچھ امیر لوگ ہوتے ہیں جنکا وقت بہت قیمتی ہوا کرتا ہے اور کچھ ایسے افراد بھی ہوتے ہیں جنکی معمولات زندگی انکے روزانہ کی کمائی پر منحصر ہوتی ہے۔ ایسے میں ہر ایک فرد کا روزانہ مکمل وقت دینا ممکن ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ اس سلسلے میں مسلسل احتجاج کیلئے مندرجہ ذیل نظام کو ترتیب دے دیا جائے تو بہت بہتر ہوگا۔جیسا کہ ہمیں معلوم ہیکہ بنگلور میں تقریباً دو ہزار سے زائد مساجد مع مصلے موجود ہیں۔ ان دو ہزار مساجد و مصلوں کو پانچ کی تعداد میں تقسیم کرکے ایک جماعت بنادی جائے۔اور روزانہ پانچ مساجد والوں کو یہ ذمہ داری دے دی جائے کہ اپنے علاقوں کے احباب مع برادران وطن کے ہمراہ فلاں تاریخ کو احتجاجی دھرنے میں 24 گھنٹے بیٹھنا ہے۔ اسی طرح دوسرے دن اگلے پانچ مساجد کو اور آئندہ کل اگلے پانچ کو اور یہ سلسلہ جاری رہے۔
اگر یہ نظام بنادیا جائے تو یقین مانیے کہ ہمارے مسلسل احتجاج کا فارمولا کامیاب ہوجائے گا اور ایک مسجد والوں پر دوبارہ ذمہ داری تقریباً ایک سال سے زائد عرصے کے بعد ہی آئے گی، جسے وہ بخوشی و بخوبی نبھائیں گے۔اسی کے ساتھ اگر انتظامات کیلئے کوئی تیار ہوں تو ٹھیک ہے ورنہ اسے بھی تقسیم کردیا جاسکتا ہے۔اور ایک اہم چیز جو قابل غور رہے کہ ہمارے احتجاجی دھرنے کا مقام ایسی جگہ پر نہ ہو جسے مذہبی شناخت حاصل ہو بلکہ شہر کے قلب میں کسی ایسی جگہ کو منتخب کیا جائے جہاں لوگوں کی مسلسل آمد و رفت ہو۔رہی بات احتجاجی دھرنا خواتین کا ہو یا مردوں کا تو اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔یا ایک نظام ایسا بھی بنایا جاسکتا ہیکہ کہ دن میں خواتین ہوں، جنکی حفاظت کیلئے کچھ طے شدہ مرد اور شام سے صبح تک مرد حضرات کا دھرنا ہو۔ اگر فقط خواتین کا دھرنا بھی ہو تو کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ بنگلور کے مختلف علاقوں کی خواتین اس کیلئے پہلے سے ہی تیار بیٹھیں ہیں۔
اگر فوری طور پر مسلسل احتجاجی دھرنے پر سنجیدگی سے غور و فکر کیا جائے تو شاید وہ دن بھی دور نہیں کہ بنگلور میں بھی ایک شاہین باغ قائم ہوجائے گا۔یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہیکہ انتظامیہ سے اسکی اجازت ملنا تھوڑا مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں ہے، ہم کوشش سے پہلے مایوس نہ ہوں۔ کیونکہ ہار ہوجاتی ہے جب مان لیا جاتا ہے اور جیت تب ہوتی ہے جب ٹھان لیا جاتا ہے۔ لہٰذا میں ہمارے قائدین اور سماجی و ملی کارکنان کی خدمت عالیہ میں یہ گزارش کرنا چاہوں گا کہ آپ اس پر جلد از جلد غور و فکر کریں اور آئندہ کا لائحہ عمل تیار کریں کیونکہ یہی وقت ہے ملک اور آئین کے دشمن اور اقتدار کی کرسیوں پر بیٹھی ظالم حکومت سے مقابلہ کرنے اور انکے خلاف آواز بلند کرنے کا ورنہ وہ دن بھی دور نہیں کہ ہمارا یہ حق بھی چھین لیا جائے!
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستاں والو!
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں