کیا اب مدرسہ قاسمیہ شاہی مرادآباد کے طلبہ یوگا سیکھیں گے؟
مرادآباد (یواین اے نیوز31جنوری2020)سوشل میڈیا پر آج دن بھر پھر سے یوگا سے متعلق بحث ہوتی رہی ہے،اسکی وجہ ہے ایک ویڈیو جس میں جامعہ قاسمیہ شاہی مرادآباد کے مہتمم مولانا اشہد رشیدی کے صاحب زادے کعب رشیدی اور کچھ علماء یوگا کرتے ہوئے دکھتے ہیں،اپ کو بتادیں کی شہر مرادآباد کے اوریا یوگا سینٹر میں 29جنوری کو گوسوامی ششیل پیٹھ دیھشور نوئیڈا۔سوامی ودیھانند پیٹھ دیھشور میرٹھ مولانا داؤد صاحب،قاری خالق صاحب چیف امام ڈاکٹر عمیر احمد الیاسی کے ساتھ مولانا کعب رشیدی نے یوگا کیا۔
اور یوگا کرنے کے بعد مولانا کعب رشیدی نے تمام یوگا کرنے والوں کے سامنے سوال کرنے والوں کا جواب دیتے ہوئے کہا۔یوگا کو کسی مذہب کے ساتھ دیکھنا یہ بھارتی تہذیب کے خلاف ہوجائیگا۔یہ ہماری ساجھی تہذیب کا حصہ ہے ۔یہ بھارتی تہذیب ہے ۔اس کو کسی خاص مذہب کے ساتھ جوڑنایا کسی مذہب کے لوگ اسکو اپنے اینٹی سمجھے میں یہ سمجھتا ہوں کہ وہ بھارت کی تہذیب کے خلاف جارہے ہیں۔ایک دوسرا سوال کیا گیا کہ کیا آپ اپنے مدسہ کے تین ہزار بچوں کو مدرسہ میں یوگا سیکھا ئیں گے ۔اس پر کعب رشیدی نے کہا کہ ہاں ہم اپنے مدرسہ میں یوگا سیکھائنگے۔اوریا سینٹر میں یوگا کے تعلق سے آئے ہوئے تمام لوگوں نے مدرسہ مرادآباد شاہی گئے جہان پر مہتمم اعلی مولانا اشہد رشیدی سے ملاقات کی۔اور یوگا کے تعلق گفتگو کی۔اب ایک بار پھر سے یوگا سے متعلق بحث شروع ہوگئی ہے۔
اس ویڈیو کو شیئر کرتے ہوئے مفتی یاسر ندیم الواجدی نے لکھا ''
جی نہیں یوگا بھارتی سنسکرتی کی پہچان نہیں ہے، یہ منوواد کی پہچان ہے۔ مدرسہ شاہی کے ذمے داران کیا واقعی اپنے ادارے میں یوگا کی کلاس شروع کرنے جارہے ہیں؟اس ویڈیو کو دیکھیے اور اندازہ لگائیے کہ مستقبل میں یہ "سانجھا وراثت" کس طرح کی مخلوط نسل کو جنم دے گی۔ہمارا تحفظ ہماری امتیازی شناخت میں ہے، نہ کہ نمک کی طرح پانی کے اندر گھل جانے میں""
یوگا کے بارے میں اہل علم کی کیا آراء ہے؟
یوگا کے متعلق دارالعلوم دیوبند(قیام: ۱۸۶۶ء) کا فتویٰ ہے:اس میں ہندوانہ مذہبی طرز کے اعمال اور شرکیہ اقوال کہے جاتے ہیں، کسی مسلمان کے لئے اس کا کرنا جائز نہیں (دارالافتاء دارالعلوم دیوبند شائع ۱۲؍ اگست ۲۰۱۵ء،فتویٰ نمبر ۶۰۲۵۹)
مسلم پرسنل لا بورڈ(قیام: ۱۹۷۲ء) کے سابق اسسٹنٹ جنرل سکریٹری اور تعمیر ملت حیدرآباد کے سابق صدر جناب عبد الرحیم قریشی صاحب (م ۲۰۱۶ء)کا بیان ہے:جو لوگ اسلام پر یقین رکھتے ہیں وہ صرف اللہ تعالیٰ کی بندگی کرتے ہیں، جس نے انہیں زمین پر بھیجا ہے، یوگا کی اصل شکل اللہ کے علاوہ دوسری چیزوں کو اللہ تعالیٰ کے برابر لاکھڑا کرنے کے مترادف ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ یوگا کے آسن ’’اوم‘‘ پڑھ کر شروع کئے جاتے ہیں، تمام آسنوں کے اشلوک ہوتے ہیں سوریہ نمسکار بھی ایک آسن ہے جس میں یوگا کرنے والا شخص ہاتھ جوڑ کر سورج کے سامنے جھک جاتا ہے۔(مسلم پرسنل لا بورڈ کی دستوربچاؤ دین بچاؤ مہم ۲۷؍اگست ۲۰۱۵ء www.asiatimes.ocm#)
مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا ولی رحمانی(ولادت ۱۹۴۳ء) کا بیان ہے:
یوگا کے آسنوں میں اشلوک پڑھے جاتے ہیں شری کرشن جی نے شری ارجن کو یوگا کی تعلیم دی تھی، اس کا راست تعلق مذہب سے ہے، یوگا صرف ورزش نہیں ہے یوگا میں سورج کی پہلی کرن کو پرنام کرتے ہیں، مختلف مرحلوں میں اشلوک پڑھے جاتے ہیں جس کی بنا پر بورڈ غیر ہندؤں کو پڑھنے پڑھوانے کو غلط سمجھتا ہے۔(قاسمی،شمس تبریز، مضمون، یوگا، ملی قائدین اور مسلمان، فکر وخبر،۲؍نومبر ۲۰۱۶ء www.Fikrokhaber.com#)جامعہ اشاعت العلوم اکل کوا(قیام ۱۹۷۹ء) کے صدر مفتی، مولانا جعفر ملی رحمانی صاحب تحریرفرماتے ہیں:یوگا جس کو آج کل ریاضت کا نام دیا گیاہے، حقیقت میں سورج کی پرستش ہے، کیوں کہ اس ریاضت کے دوران سنسکرت زبان میں ایسے الفاظ شرکیہ پڑھے جاتے ہیں جن سے سورج کی عبادت اور تعظیم مقصود ہوتی ہے، نیز یہ بدھسٹ قوم کا شعار ہے۔
ان شعار کو اپنانا گویا ان کی مشابہت اختیار کرنا ہے، جب کہ اس طرح کی مشابہت ناجائز ومنع ہے، لہٰذا یوگا بھی ناجائز ومنع ہونا چاہئے۔(رحمانی،جعفر ملی،محقق ومدلل جدید مسائل،اکل کوا، جامعہ اشاعت العلوم، طبع اول ۲۰۱۵ء:۲؍۷۶۶)سعید الرحمن سنابلی نے یوگا شریعت اسلامیہ کی روشنی کے عنوان پر ایک مضمون قلمبند کیا ہے، جس میں تحریر کرتے ہیں:سابقہ سطور میں درج کی گئی معلومات سے معلوم ہوتا ہے کہ یوگاایک ہندوانہ طریقہ ورزش ہی نہیں؛بلکہ ان کی ایک اہم عبادت بھی ہے، جس میں وہ مختلف مذہبی اشلوکوں اور منتروں کی ادائیگی کے ساتھ سوریہ نمسکار جیسے واضح شرکیہ عمل کو انجام دیا کرتے ہیں، گویا یہ ہندوانہ پہچان پر مبنی ہے اور ان کی تہذیب کا حصہ ہے۔(ماہنامہ الفیصل،اپریل ۲۰۱۶ء شمارہ ۳۵۶ ص: ۲۵)نوجوان معروف صحافی اور ملت ٹائمز کے ایڈیٹر شمس تبریز قاسمی نے لکھا ہے:یوگا صرف ورزش نہیں ہے؛بلکہ یہ ہندوتوا کا ایک کلچر ہے۔
اس میں استعمال ہونیوالے دھارمک الفاظ ہیں، اگر اس سے سوریہ نمسکار اور دوسرے قابل اعتراض کلمات ہٹا بھی دئے جائیں تو بھی ایک مسلمان کو زیب نہیں دیتا ہے کہ وہ یوگا کرے، کیوں کہ بہر صورت یہ ہندو مذہب کی پرستش کا ایک عمل ہے۔(شمس تبریز قاسمی، یوگا سب پر تھوپنے کا کیا مطلب، روزنامہ اخبار کشمیر عظمیٰ ۲؍نومبر ۲۰۱۶ء)فکروخبر کے ایڈیٹر انصار عزیز ندوی کی رائے ہے:یوگا صرف ورزش نہیں ہے؛بلکہ ہندومت کا ایک حصہ ہے، اس کو اسکولوں میں زبردستی نصاب میں شامل کرکے پورے ہندوستان کو بھگوا رنگ میں رنگنے کی سازش ہے۔(یوگا اور سوریہ نمسکار کا فتنہ، انصار عزیز ندوی،فکروخبر ۹؍مارچ ۲۰۱۶ء)۔
آپ کو بتادیں کی جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی،اتر پردیش کے لال باغ چوارہا فیض گنج مرادآباد میں واقع ہے۔اس جامعہ کی بنیاد مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اللہ کے حسب ایماء پر اہل مرادآباد کے غریب مسلمانوں نے قریب ڈیڑھ صدی پہلے رکھی تھی۔ اسوقت جامعہ کے مہتمم مولانا اشہد رشیدی صاحب ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں