تازہ ترین

اتوار، 1 جون، 2025

نشستند، خوردند، گفتند و برخواستند!: ہماری موجودہ علمی مجالس اور قورمہ

نشستند، خوردند، گفتند و برخواستند!: ہماری موجودہ علمی مجالس اور قورمہ
نازش احتشام اعظمی 
(جب بھی ہم کسی شرارت کی پلاننگ کرتے ہیں، ہمارے قریبی بزرگ دوست جناب سید منیر عظمت صاحب فوراً کہہ دیتے ہیں: ‘پہلے ایک میٹنگ کرتے ہیں، اور اُس میں کھانے پر غور و خوض ہوگا!’ پھر ہنستے ہوئے پوچھتے ہیں: ‘تو پھر کیا پکوا دوں؟’)

 فکری دنیا میں ایک ایسا وقت تھا جب علمی محافل، بیٹھکیں، سیمینار، یا مطالعاتی حلقے — صرف رسمی تقریبات نہ تھیں بلکہ گہرے غوروفکر، اختلافِ رائے، مکالمے اور دریافت کا زندہ مظہر ہوا کرتی تھیں۔ ان محفلوں کی اصل روح صرف اجتماع تک محدود نہ تھی، بلکہ ان کی جان علمی شرکت میں تھی۔ آج، تاہم، ایک خاموش مگر گہری تبدیلی آچکی ہے۔

 اگرچہ خارجی ڈھانچہ اب بھی باقی ہے — کرسیاں، مائیک، مقالے، اور جی ہاں، قورمے کی بھاپ اُڑاتی پلیٹیں — مگر ان مجلسوں کی روح جیسے چپکے سے رخصت ہو چکی ہے۔

“بیٹھے، کھایا، بولے اور اٹھ گئے” جیسا عنوان اس نئے طرزِ عمل کو تقریباً شاعرانہ انداز میں بیان کرتا ہے۔ یہ جملہ نہ صرف رسومات میں تبدیلی کی عکاسی کرتا ہے، بلکہ علمی معنویت کے زوال کو بھی نمایاں کرتا ہے۔ تزئینی کانفرنسوں، رسمی سیمیناروں، اور بڑے بڑے ناموں سے سجی نشستوں کا چلن ہمیں اس دور میں لے آیا ہے جہاں قورمہ — جو کبھی صرف لوازمات میں شمار ہوتا تھا — اب غالباً پوری محفل کی جان بن چکا ہے۔


بیٹھک کا تاریخی تصور:

یہ جاننے کے لیے کہ ہم نے کیا کھو دیا ہے، ضروری ہے کہ ہم ان مجالس کے اصل مقصد کو یاد کریں۔ ماضی کی بیٹھک صرف یونیورسٹی ہال یا کسی ہوٹل کے سیمینار روم تک محدود نہ تھی۔ وہ کسی کے ڈرائنگ روم، کسی کتب خانے کا گوشہ، یا کسی پرانے گھر کی چھجّی بھی ہو سکتی تھی۔ مقصد ذاتی نمائش نہیں، بلکہ اجتماعی فکری نمو ہوتا تھا۔

 لوگ اس لیے نہیں آتے تھے کہ دکھائیں کہ وہ کتنا جانتے ہیں، بلکہ اس لیے کہ سنیں، سیکھیں، اور دیکھیں کہ کیا نہیں جانتے۔

جہاں کھانے کی موجودگی ہوتی، وہ نہایت سادہ ہوتی — شاید چائے، کچھ نمک پارے، اور کسی مہربان خاتون کے ہاتھ کا تیار کردہ میٹھا۔ قورمہ یا بریانی اگر کبھی پیش کی جاتی، تو وہ ایک نادر، فیاضانہ عنایت ہوتی — کبھی بھی مرکزِ محفل نہ ہوتی۔ مرکز ہمیشہ فکر ہوا کرتی — اور بھوک علم کی ہوتی، مصالحے کی نہیں۔

قورمہ کلچر کا عروج:

آج کی نام نہاد علمی محفلوں میں “قورمہ” ایک علامتی لفظ بن چکا ہے۔ یہ اس غیر ضروری کاوش کا استعارہ ہے جو مہمان نوازی، ظاہری شان و شوکت، اور سماجی مقام پر دیا جاتا ہے — اور اکثر یہ سب علمی مواد کی قیمت پر ہوتا ہے۔ دعوتیں فکری تبادلے کے لیے نہیں، بلکہ تعلقات بڑھانے کے لیے دی جاتی ہیں۔ مقررین کو اس لیے نہیں بلایا جاتا کہ ان کے پاس کچھ نیا کہنے کو ہے، بلکہ اس لیے کہ وہ کسی ادارے کی نمائندگی کرتے ہیں یا سیاسی طور پر موزوں لگتے ہیں۔


کانفرنسیں دیر سے شروع ہوتی ہیں، ایک گھنٹہ تعارف میں گزرتا ہے، دوسرا گھنٹہ خود ستائش میں، اور ابھی کوئی بامعنی خیال جڑ بھی نہ پکڑ پایا ہو کہ دوپہر کے کھانے کا اعلان ہو جاتا ہے۔ کھانا — جو اکثر کسی مشہور کیٹرر کے ہاتھوں تیار ہوتا ہے — اصل تقریب بن جاتا ہے۔ لوگ کلیدی مقرر کو نہیں یاد رکھتے، بلکہ باداموں سے بھرپور قورمہ، خستہ نان، اور چار قسم کی مٹھائیاں ذہن میں محفوظ رہتی ہیں۔


المیہ یہ ہے کہ تقریب کے بعد بھی گفتگو فلسفیانہ دلائل پر نہیں، بلکہ چاول کی چکنائی پر ہوتی ہے۔

مقصد میں تبدیلی: مکالمے سے مظاہرے تک
آج جو کچھ “علمی شرکت” کے نام پر منعقد ہوتا ہے، وہ درحقیقت صرف منظرنامے کی تیاری ہے۔ مقررین اس بات میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں کہ تقریب کی کتنی تصاویر سوشل میڈیا پر آئیں گی، بنسبت اس کے کہ گفتگو کتنی معیاری ہو۔ حاضرین بھی اکثر سامع کم، مہمان زیادہ ہوتے ہیں۔ کوئی کمزور دلیل پر سوال نہیں اٹھاتا، کوئی مقرر کے مقدمے پر تنقید نہیں کرتا۔ سب خاموشی سے سر ہلاتے ہیں، رسمی تالیاں بجاتے ہیں، اور کھانے کا انتظار کرتے ہیں۔

جہاں پہلے بحث و مباحثہ رات گئے تک جاری رہتا، اب وہاں لوگ پندرہ منٹ بعد گھڑی دیکھنے لگتے ہیں کہ بوفے تک پہنچنے میں کتنا وقت لگے گا۔ فکری مکالمہ وقت پر کھانے کی قربان گاہ پر قربان ہو چکا ہے۔


چیف گیسٹ کا کلچر:

آج کی تقریبات کی ایک دلچسپ مگر افسوسناک خصوصیت “چیف گیسٹ” کی شخصیت ہے۔ یہ اکثر وہ فرد ہوتی ہے جس کا موضوع سے کچھ لینا دینا نہیں ہوتا، مگر انتظامی یا سیاسی اہمیت کی حامل ضرور ہوتی ہے۔چیف گیسٹ  دیر سے آتا ہے، 

جلدی جاتا ہے، اور درمیان میں ایک لمبی تقریر کرتا ہے جس میں عمومی تعریفیں اور کھوکھلے نعرے شامل ہوتے ہیں۔ جبکہ اصل ماہرین — جو موضوع پر لکھ چکے، پڑھ چکے اور سوچ چکے — یا تو وقت کی کمی کا شکار ہو جاتے ہیں یا مکمل نظر انداز۔

چیف گیسٹ ربن کاٹتا ہے، کھانے کی تعریف کرتا ہے، گرم گرم پلیٹ کے ساتھ روانہ ہو جاتا ہے، ساتھ کچھ خوشنما تصویریں لے کر۔ اس کا علمی حصہ؟ اکثر صفر کے برابر۔ مگر اس کی غیر موجودگی میں منتظمین کو تقریب کے “وقار” پر خدشہ ہوتا ہے۔

کیا واقعی قورمہ قصوروار ہے؟:

صاف الفاظ میں کہنا چاہیے: بطور کھانے، قورمہ بے قصور ہے۔ لذیذ، باوقار، اور روایت میں رچا بسا، یہ مہمان نوازی کی علامت ہے۔ مسئلہ قورمے میں نہیں، بلکہ اس کی جگہ میں ہے — کہ یہ اختتام پر ایک شائستہ پیشکش ہو، نہ کہ پوری تقریب کا نقطۂ عروج۔

ہر تہذیب میں کھانا لوگوں کو جوڑتا ہے۔ یہ غیر رسمی گفتگو کو فروغ دیتا ہے، طبقاتی فاصلے کم کرتا ہے، اور گرم جوشی پیدا کرتا ہے۔ مگر جب کھانا فکری اجتماع کے اصل مقصد پر غالب آ جائے، اور مفکرین اپنی ہی محفل میں پس منظر بن جائیں، تو ہمیں سوال اٹھانا چاہیے — کیا ہم راستہ بھول چکے ہیں؟

آگے کا راستہ: فکری تبادلے کی روح کی بازیافت

تبدیلی ابھی ممکن ہے۔ ضرورت ہے کہ ترجیحات کو شعوری طور پر ازسرِنو مرتب کیا جائے۔ منتظمین، خصوصاً جامعات اور ادبی حلقوں میں، کو ظاہر پسندی کے بجائے مواد پر توجہ مرکوز کرنی ہوگی۔ کچھ عملی تجاویز درج ذیل ہیں:

• چھوٹی، موضوعاتی اور بامقصد مجالس جہاں گہرائی کو عظمت پر فوقیت دی جائے۔
• پیشگی مطالعے پر مبنی نشستیں، تاکہ شرکاء پہلے سے مواد سے واقف ہوں۔

• سوال و جواب پر مبنی سیشنز، جہاں سامعین کی شرکت کو ترجیح دی جائے۔• باری باری ماڈریٹرز، خاص طور پر نوجوان اسکالرز کو موقع دیا جائے۔
• اور ہاں، کھانے کو سادہ اور معقول رکھا جائے — لذیذ ضرور، مگر ثانوی۔

سینئر اہلِ علم کو بھی مثال قائم کرنی ہوگی — خطاب کے بعد کی گفتگو کو کھانے کے بعد کی تصویروں پر فوقیت دے کر، اور محض نمائش کے بجائے سرپرستی و رہنمائی کے جذبے کے تحت شریک ہو کر۔

اختتامیہ: فکری مجالس کے لیے ایک گزارش

“بیٹھے، کھایا، بولے اور اٹھ گئے” ایک لطیف طنز ہے، جو ہمارے چہروں پر آئینہ رکھتا ہے۔ یہ بتاتا ہے کہ ہماری مجالس اب شرکت کی رسم بن چکی ہیں، علم کی جولانگاہ نہیں۔ مگر اس طنز کے پیچھے امید چھپی ہے۔ یہ حقیقت کہ ہم اس طرزِ عمل پر تنقید کر سکتے ہیں، اس بات کا اشارہ ہے کہ ایک بہتر راستہ موجود ہے — اور بہت سے لوگ اس کی تلاش میں ہیں۔

آیئے ہماری آئندہ بیٹھکیں ایسی ہوں جہاں خیالات قورمے سے زیادہ دیر تک دم پر رہیں، اور ذہن چمچ سے زیادہ گہرائی میں ہلائے جائیں۔ آیئے ہم مکالمے کی اس روایت کی طرف لوٹیں جہاں اصل تحفہ سیخ کباب نہیں، بلکہ وہ بصیرت ہو جو مجلس کے اختتام کے بعد بھی دیر تک ساتھ رہے۔

آخر، اگر ہم ایک ساتھ جمع ہو کر صرف پیٹ بھر کے لوٹ جائیں، اور ذہن خالی رہیں — تو ایسی محفل کا حاصل کیا؟

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad