پیاساخنجر
فــیــــاض قـــــریشــــی
No. F3, 1St Floor Vatsou Mekhri Apart Ment 1st. C. Cross,
Ganganagar Bangalore -32
Mob : 9448785860
خلیق صاحب کوئی خاندانی رئیس نہیں تھے۔ انھوں نے جو کچھ بھی کمایاتھا اس میں ان کی محنت اور دوراندیشی شامل تھی۔ وہ کپڑوں کے بہت بڑے تاجر تھے، ان کی تجارت ساری ریاست میں پھیلی ہوئی تھی۔ ان کی جائداد بھی بہت وسیع تھی، جائداد کی دیکھ بھال ان کے چاروں لڑکے انتہائی خوش اسلوبی کے ساتھ کرتے تھے۔
میری ملاقات خلیق صاحب کے ساتھ عجیب حالت میں ہوئی تھی، میں اپنے تبادلہ کے بعد شہر میں کمرے کے لئے مارا مارا پھر رہاتھا کہ ایک دن انھوں نے مجھے اپنے پاس بلایا اور پچھلے ایک ہفتہ سے ان کے محلے میں چکرکاٹنے کی وجہ پوچھی، جب میں نے وجہ بتائی تو انھوں نے میرے ایک ہفتہ کی دوڑدھوپ کا نتیجہ پوچھا تو میں نے انہیں بتایا کہ ’’محلّے میں گھر بھی خالی ہیں اور کمرے بھی مگر مالکِ مکان کرایہ اور اڈوانس اس قدر زیادہ بتارہے ہیں کہ نہ کرایہ اداکرنا میرے بس کی بات ہے اور نہ ہی میں اس قدر زیادہ اڈوانس دے سکتا ہوں۔‘‘
’’کہاں کے رہنے والے ہو تم؟‘‘ خلیق صاحب کے استفسار پر میں نے اپنے گائوں کا نام بتایا۔
’’اس وقت کہاں ٹھہرے ہوئے ہوں؟‘‘
اُن کے پوچھنے پر میں نے لاڈج (Lodge) کا نام بتایا جہاں میں ٹھہرا ہوا تھا۔ مجھے سن کر انھوں نے لاڈج سے اپنے اسباب اٹھالانے کے لئے کہا تو میں نے پوچھا۔
’’کیا آپ کے پاس کمرہ خالی ہے؟‘‘
’’نہیں میاں ایسی بات نہیں ہے۔ میراگھر کافی بڑا ہے، کئی کمروں پر مشتمل ہے، اس میں سے تم ایک کمرے میں اس وقت تک رہ سکتے ہو جب تک کہ تم اپنے لئے کوئی مناسب انتظام نہیں کرلیتے۔‘‘
میرے پوچھنے پر کہ ’’اس وقت تک کے لئے مجھے کتنا کرایہ، اور اڈوانس اداکرنا پڑے گا۔‘‘
تو خلیق صاحب نے میری پیٹھ پر تھپکی دیتے ہوئے کہا کہ میں اس کی فکر نہ کروں، انہیں سن کر میں حیرت میں پڑگیا۔
’’ارے میاں اس میں حیران ہونے کی کیا بات ہے۔ میں تمہارے کام آکر تم پر کوئی احسان نہیں کررہا ہوں۔ بس مالک کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے کبھی کبھی اس طرح کے کام کرلیا کرتاہوں۔‘‘
یوں تو خلیق صاحب شریف انسان ہی لگ رہے تھے۔ مگر میں یہ سوچ رہاتھا کہ وہ حقیقت میں بھی ایک شریف انسان ہیں اور میں راستہ بھر انہیں کے بارے میں سوچتارہوا لاڈج پہنچا ، جب کوئی گھنٹہ بھر بعد ان کے گھر لوٹا تو انھوں نے مجھے اپنے ساتھ لیا اور کمرے میں پہنچ کر چابی کو میرے حوالے کرتے ہوئے پھر ایک بار کہا کہ میں بے فکر اس کمرے میں اس وقت تک رہوں جب تک کہ میں اپنے لئے کمرے کا انتظام نہیں کرلیتا۔
معلوم نہیں خلیق صاحب کا یہ مجھ پر احسان تھا یا پھر شفقت کہ میری گردن ان کے آگے جھک گئی۔ انھوں نے مجھے قریب رکھی ہوئی کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود بھی دوسری کرسی پر بیٹھ کر مجھ سے باتیں کرنے لگے۔ اسی دوران ایک بہت ہی ہنس مکھ بچّی چائے کی ٹرے کے ساتھ کمرے میں داخل ہوئی تو لڑکی کو پیار سے اپنے قریب کرتے ہوئے مجھے بتایا کہ یہ ان کی لڑکی نوشین ہے۔ نوشین نے مجھے سلام کیا اور پوچھنے پر بتایا کہ وہ پانچویں جماعت میں پڑھتی ہے اور ساتھ ہی بڑی معصومیت کے ساتھ اس نے پوچھا۔
’’کیا اپ مجھے ٹیوشن پڑھائیںگے؟‘‘
اس کے اس سوال پر میں مسکرانے لگا اور خلیق صاحب کا ہلکا سا قہقہہ بلند ہوا اور نھوں نے بتایا کہ پچھلے پندرہ دنوں سے نوشین ٹیوشن پڑھنے کے لئے انہیں تنگ کررہی ہے اب مجھے دیکھ کر سمجھ گئی کہ اس کے لئے استاد کا انتظام ہوگیا ہے۔
’’اچھا آج سے ہم تمہیں ٹیوشن پڑھائیںگے۔‘‘
میں نے بہت ہی خوش دلی کے ساتھ اس سے کہا تو وہ خوشی سے پھول گئی اور چائے کی خالی پیالیوں اور ٹرے کے ساتھ کمرے سے نکل گئی۔
رات کے کوئی آٹھ بجے نوشین نے مجھے اطلاع دی کہ اس کے ابّو میرا انتظار کررہے ہیں میں اس کے ساتھ ایک بہت ہی وسیع ہال میں پہنچا۔ وہاں خلیق صاحب اپنے چاروں لڑکوں کے ساتھ میرے منتظر تھے۔ جیسے ہی میں ان کے قریب ہوا انھوں نے سب کا تعارف کرایا۔ عامر، عادل، اصغر، انصر نے باری باری مجھ سے مصافحہ کیا اور سب ڈائننگ ہال کی طرف چل پڑے جہاں پر کھانا چن دیا گیا تھا اور مجھے جھجھکتے ہوئے دیکھ کر عامر نے کہا۔
’’شاید جناب کو ابھی بھوک نہیں لگی ہے۔‘‘
’’دیکھئے آپ لوگوں نے مجھ اجنبی کو اپنے گھر پناہ دے کر ہی کیا کم احسان کیا ہے۔۔۔۔‘‘
اس سے پہلے کہ میںکچھ کہتا خلیق صاحب نے میری بات کو کاٹتے ہوئے پانی کے جار کو میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا:
’’احسان و حسان کے چکر میں کہاں پڑگئے ہو میاں یہ لو پانی اور ہاتھ دھولو۔‘‘
ان کے اِن الفاظ میں خلوص کے ساتھ اس قدر رعب تھا کہ میں چپ چاپ دسترخوان پر پیٹھ گیا۔
کھانے کے دوران سب نے کچھ ایسی اپنائیت برتی کہ میرے اندر سے اجنبیت کا احساس جاتارہا، اور میں بھی سب کے ساتھ کچھ بے تکلف سا ہوگیا۔ کھانے کے بعد عامر ساتھ چلاآیا اور بہت دیر تک اِدھر اُدھر کی باتیں کرتارہا، بہت رات گئے جب وہ کمرے سے باہر نکلا تو میں سوچ رہاتھا کہ اجنبی شہر میں مجھے ایک بہترین دوست مل گیا ہے اور جیسے جیسے دن گزررہے تھے میرے اندر یہ احساس بھی بڑھنے لگا کہ میں خلیق صاحب کے گھر کا ایک فرد بنتا جارہاہوں۔ مغرب کے ساتھ ہی نوشین کتابوں کے ساتھ کمرے میں آدھمکتی تھی اور سونے سے پیشتربھائیوں میں سے کوئی نہ کوئی کیا رم یا پھر تاش کے پتوں کے ساتھ پہنچ جاتا تھا۔ یا پھر مجھے اپنے کمرے میں کھینچ لے جاتا تھا اور کبھی کبھی بہت رات گئے تک ہم کھیلنے میں مشغول رہتے تھے۔
ایک دوپہر میں اپنے کمرے میں کپڑے پریس کررہا تھا کہ عامر نے آکر بتایا کہ اس کی دلہن آج میکے سے لوٹ رہی ہے اسے لینے کے لئے ساراگھر ریلوے اسٹیشن جارہا ہے اور یہ کہ میں بھی ساتھ چلوں۔ بھلا میں کیوں کر انکار کرسکتا تھا، میں بھی سب کے ساتھ اسٹیشن پہنچا ٹھیک تین بجے ٹرین پلیٹ فارم پر آگئی، اور جیسے ہی عامر کی دلہن گود میں ننھے سے بچے کو لئے ہوئے بوگی سے اتری میں اس خاندان کے آپسی محبت اور خلوص کو دیکھ کر بہت متاثر ہوا، اور سوچنے لگا کہ کاش میرے بھی بھائی بہنیں ہوتے اور میں انہی سوچوں میں گم تھا کہ عامر نے اپنی دلہن سے میرا تعارف کرایا، ثمینہ نے سلام کرتے ہوئے کہا کہ وہ میرے بارے میں بہت کچھ جانتی ہے۔
’’کیا جانتی ہیں آپ میرے بارے میں؟‘‘ کچھ حیران سا ہوکر میں نے پوچھا۔
’’آپ بہت اچھے شاعر ہیں۔‘‘
’’کس بے وقوف نے آپ کو بتایا کہ میں شاعرہوں اور وہ بھی بہت اچھا۔‘‘
میرے اس سوال پر ثمینہ عامر کی طرف دیکھتے ہوئے ہنسنے لگی اور عامرجھینپ گیا اور فوراً احتجاجاً مجھ سے پوچھا۔
’’کیا میں تمہیں بے وقوف لگتاہوں؟‘‘
جواب میں میںنے ہنستے ہوئے پوچھا۔ ’’عامر کیا میں اتنابڑاشاعر ہوں کہ تم نے اس کا ذکر بھابی سے کردیا۔‘‘
’’ارے بھئی میں نے تمہیں ایک اچھا شاعر سمجھا اور تعریف کی اور تم ہو کہ اس صلہ میں مجھے بے وقوف ٹھہرارہے ہو۔‘‘ پھر اس نے کہا: ’’شاید شاعر لوگ سمجھتے ہیں کہ عقل مند لوگ ان کی تعریف نہیں کرسکتے۔‘‘ پھر وہ کھل کھلاکر ہنس پڑا۔ اس کے ساتھ ہی سب مجھ پر نظریں جمائے ہنسنے لگے ، اسی دوران عادل نے اطلاع دی کہ خلیق صاحب ٹیکسی میں بیٹھے ہوئے ہم سب کا انتظار کررہے ہیں، اور ہم سب ٹیکسی کی طرف چل پڑے۔
خلیق صاحب کی بیوی کا انتقال ہوئے کوئی تین سال بیت چکے تھے ، کوئی دوسال پیشترعامر اور ثمینہ کی شادی ہوئی تھی اور ثمینہ سسرال پر کچھ اس طرح اثرانداز تھی کہ گھر کا ہر فرد اس پر جان چھڑکتا تھا۔ خلیق صاحب تو بہو کی تعریف میں قلابے ملانے کے عادی سے ہوگئے تھے، دوست و احباب اور ملنے جلنے والوں سے ثمینہ کی تعریف کئے بنا وہ اپنی ملاقات اور گفتگو کو ادھوری سی سمجھتے۔
مجھے ان لوگوں کے ساتھ رہتے ہوئے تین ماہ بیت گئے، میں نے اس عرصے میں اپنے لئے ایک مناسب کمرہ تلاش کرلیا، جب کمرے کی چابی لوٹانے کے لئے خلیق صاحب کے پاس پہنچا تو سب مجھے حیرت کے ساتھ تکنے لگے۔ نوشین کو جیسے جھٹکا لگا وہ یکلخت اٹھ کھڑی ہوگئی اور میرا ہاتھ پکڑ کر کہنے لگی۔
’’نہیں، انکل! آپ ہمیں چھوڑ کر کہیں نہیں جائیںگے۔‘‘
’’بی بی میں تمہیں پڑھانے کے لئے ہر روز آیاکروںگا، میں تم لوگوں سے دور نہیں جارہاہوں۔‘‘
’’کچھ بھی ہو آپ یہاں سے نہیں جائیںگے۔‘‘
وہ بضد ہوگئی اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا خلیق صاحب نے کہا:
’’میاں! تمہیں یکا یک یہ کیا سوجھی۔‘‘ پھر کہا: ’’چابی اٹھائو اور اپنے کمرے میں جائو، آخرکس بات کی شکایت ہے تمہیں؟‘‘
’’چچا جان آپ مجھ سے کرایہ لے لیں جسے آپ انکار کرتے آرہے ہیں۔‘‘
’’اچھا میاں جائو تم جب ایسے ہی بضد ہو تو جو بھی مناسب سمجھو آئندہ ماہ سے کرایہ دے دیا کرو۔‘‘
اس طرح میں پورے تین ماہ بعد خلیق صاحب کا کرایہ داربن گیا۔ مگر جو محبت اور اپنائیت مجھے ان سے اور ان کے گھروالوں سے مل رہی تھی وہ کسی بھی طرح میرے اپنوں کی محبت اور اپنائیت سے کچھ کم نہ تھی، یہی وجہ تھی کہ شہر میں میں نے اپنے اکیلے پن کو کبھی محسوس نہیں کیا۔ بہت ہی ہنسی خوشی کے ساتھ دن گزررہے تھے کہ اس ہنستے کھیلتے گھر پر ایک عظیم سانحہ ٹوٹ پڑا۔ وہ یہ کہ ایک رات خلیق صاحب پر زبردست دل کا دورہ پڑا اور سب کو روتا بلکتا چھوڑ کر چلے گئے۔ میں بھی اس صدمے کو کئی دنوں تک برداشت نہ کرسکا۔
آج خلیق صاحب کے انتقال کے پورے چار سال گزرچکے ہیں اور اس دوران عادل، انصر اور اصغر کی شادیاں ہوچکی ہیں، اور گھر کی ساری فضابدل چکی ہے، بھائیوں کے درمیان پیار ومحبت اور خلوص کا وہ جوش باقی نہیں رہا جو کبھی اس گھر میں دیکھنے کے لئے ملتا تھا۔ ثمینہ جو کسی وقت گھر میں سب کی آنکھوں کا تارا تھی اب اس کی حیثیت ایک عام بھاوج کی سی ہوکر رہ گئی تھی۔ ذرا ذراسی بات پر اس کے دیور اور دیورانیاں اس کے ساتھ بری طرح الجھ پڑتے تھے۔ دبی دبی لڑائیاں آپس میں عام ہوکر رہ گئی تھیں۔ مگر آج جو کچھ ہوا میں اسے کبھی بھول نہیں سکتا۔ میںا ٓج شام کوئی سات بجے اپنے کمرے میں پہنچاہی تھا کہ نوشین کمرے میں داخل ہوئی۔ میں اس کی حالت کو دیکھ کر پریشان ہوگیا۔ روتے روتے اس کی آنکھیں سوجھ گئی تھیں۔ میں نے اس کی وجہ پوچھی تو وہ بری طرح پھوٹ پڑی اور ہچکیوں کے درمیان بتانے لگی کہ جائداد کی تقسیم کی خاطر آج دوپہر اس کے بھائیوں کے درمیان ایک زبردست ہنگامہ کھڑا ہوگیا تھا اور نوبت مارپیٹ تک پہنچ گئی تھی، اور بیچ بچائو کے لئے پڑوسی اور محلے والے گھر کے اندر گھس پڑے تھے، نوشین کو سن کر میرا بھی جی چاہ رہاتھا کہ میں بھی اس کے ساتھ پھوٹ پھوٹ کر روئوں۔ میں ضبط کرتا رہا مگر میرے آنسو بہتے ر ہے، میں نے پورے پندرہ دنوں تک بھرپور کوشش کرڈالی کہ کسی طرح بھائیوں کے دل آپس میں صاف ہوجائیں اور انہیں اپنے چولہے الگ کرنا ہی ہے تو آپس میں خلوص پیار و محبت کے ساتھ کرلیں، مگر کچھ نہ ہوا۔ نفرت اور عداوت کے درمیان سب نے اپنے چولہے الگ کرلئے، اسی دوران میرا تبادلہ دوسرے شہر میںہوگیا۔
مجھے اس نئے شہر کو آئے ہوئے چھ ماہ گزرگے ہیں، اس دوران میرے اور عامر کے درمیان رابطہ جاری رہا ، ایک مرتبہ عامر نے کہا کہ تجارت پوری طرح ٹھپ ہوچکی ہے، اس کے بعد نہ جانے کیا بات ہوئی کہ عامرنے رابطہ جاری نہیں رکھا، جس کی وجہ سے اس خاندان کے بارے میں میری تشویش برابر بڑھ رہی تھی کہ ایک دن مجھے نوشین کا فون آیا کہ عامر بہت بری طرح سے زخمی ہوگیا ہے اور یہ کہ میں فورًا آئوں۔ میں اسی وقت نکل پڑا ،شہرپہنچ کر معلوم ہوا کہ پچھلی رات عامر، عادل اور انصر آپس میں بری طرح لڑپڑے تھے، جس کی وجہ سے عامر کا سر بُری طرح پھٹ گیاتھا اور وہ موت وحیات کی کشمکش میں شہر کی جنرل ہسپتال میں پڑاہواہے۔مزید معلوم ہوا کہ عادل اور انصرپولیس کی حراست میں ہیں ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوا کہ پچھلے تین ماہ سے اصغر اپنی بیوی کے ساتھ سسرال میں رہنے لگا ہے اور بھائیوں پر مقدے چلانے کے لئے شہر کے مشہوروکیل سے رجوع ہے۔
میں ہسپتال پہنچا، بے ہوش عامر کے سرپرپٹیاں بندھی ہوئی تھیں اور جسم پر کئی جگہ مرہم پٹی ہوئی تھی اور اسے خون دیا جارہا تھا۔ میری نظریں عامر کے پلنگ سے لگیں ثمینہ اور نوشین پر پڑیں اور میں بے چین ہواٹھا۔ مجھے لگا جیسے خلیق صاحب کی چھوڑی ہوئی جائداد نے اس گھر کا سارا خون نچوڑلیا ہے۔ کیا والدین کی چھوڑی ہوئی جائداد اولاد کے درمیان ایک پیاساخنجر ہے؟
میں سوچتارہ گیا۔


کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں