(۱) خلافت و جمہوریت کی کشمکش میں الجھنے سے بہتر ہے کہ تعلیم، اور اقتصادیات پر توجہ دی جائے، عالم اسلام کی از سر نو بنیاد آج ایک طرح انہیں دو چیزوں پر منحصر ہے، میراث اسلاف کی بقا کے لئے دعا و دعوت کا راستہ ابھی بھی ہمارے سامنے ہے، حالات تب بدلینگے جب ہم خود کو بدلینگے۔ (۲) نوائے حق ازل سے تابندہ تر رہی ہے، عالم اسلام کو جو صورتحال درپیش ہے اس کے ذمہ دار مسلمان ہیں، فرقہ واریت، عصبیت، ایمان فروشی اور تنگ نظری کو اسلام کا نام دیا جارہا ہے،
لیکن اعلائکلمة الحق کے پابند آج بھی تاریکیوں میں روشنی کا کام کر رہے ہیں،بس ہمیں اصل اور ماسواء میں فرق کرنا ہے۔(۳) عصر حاضر میں ارطغرل جیسی شخصیات ہیں یا نہیں واللہ اعلم لاکن کرودوغلو، اور امیر حضرت اعلی ہر جگہ موجود ہیں اور اسی طرز پر کام کررہے ہیں، ضروری نہیں کہ وراثت میں صداقت بھی ملے، مگر وراثت میں سیادت ضرور ملتی ہے، اور یہ نہیں ہونا چاہیے۔(۴) علمی دنیا میں جدید وقدیم کی تصنیف فوائد کے اعتبار سے ضرور ہے مگر دینی و دنیاوی لحاظ سے محض ۲۰۰ سال پرانی ہے جو اس وقت کے حالات کے اعتبار سے موزوں تھی،
مگر دور حاضر میں مروجہ تعلیمی نظام اور علوم شرعیہ یکساں طور پر ضروری ہیں، تفریق نقصان دہ ہے، البتہ تخصص کسی ایک میں ہوسکتا ہے۔(۵) اسلام صرف عبادات کا نام نہیں، کارگاہ حیات کے ان منظم اصول و ضوابط کی پیروی کا نام ہے جو کتاب ہدایت کے ذریعہ ہم تک پہونچی، جس میں سیاسیات، معاشیات، سماجیات، حرب و فنون سب شامل ہیں، صوم و صلاة دیگر مذاہب میں بھی ہے، مگر وہ نشان راہ نہیں، اصل اسلام پر یقین وعمل ہی ضامن نجات ہے۔
#عالم_اسلام
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں