یروشلم(یواین اے نیوز27مئی2020)زمین کا بنجر (اریڈ ویسٹ لینڈ) ہوجانا،زیرزمین پانی کی سطح کم سے کم ہوجاتی ہے، یعنی کسی بھی زمین کا صحرا بنتے چلے جانا والا۔بھارت سمیت دنیا کے کئی حصوں کی پریشانی کا باعث ہے۔ یہ خطرہ گلوبل وارمنگ موسمیاتی تبدیلی کے ساتھ ساتھ بہت سی دوسری وجوہات کی وجہ سے پیدا ہورہا ہے۔ سائنس دانوں نے متنبہ کیا ہے کہ اسرائیل کے سامنے صحرا بننے کا ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔
پورا ملک صحرا کیسے بنے گا؟
ہائیفا یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے متنبہ کیا کہ اگر موجودہ ماحولیاتی حالات یکساں ایسے ہی رہی تو صدی کے آخر تک اسرائیل کا صحرا (ریگستان)بن جانے کا خطرہ ہے۔ اسرائیلی اخبار یزرال ہاؤم سے گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر یوری شانس نے کہا کہ اگر مستقبل میں درجہ حرارت میں اضافے کو دیکھا جائے تو پورا ملک صحرائی بننے جا رہا ہے۔
درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے
پروفیسر شناس کے حوالے سے ایک میڈیا رپورٹ نے لکھا ہے کہ پچھلی دہائی میں جس طرح درجہ حرارت بڑھتا ہوادکھ رہاہے وہ معمول کی بات نہیں ہے۔ ہر سال درجہ حرارت میں طویل اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ گراف موسم کے خوفناک حالات کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ عام طور پر سرد رہنے والی گلیوں میں صحرائے نیگیو کی طرح کا درجہ حرارت ہوجائے گا ، اگر اس طرح عالمی سطح پر وارمنگ کی تباہی جاری رہا تو ایسے حالات جلد ہی آسکتے ہیں۔
طبریہ جھیل کے خشک ہونے سے متعلق احادیث
مذہب اور تاریخ کی کتابیں اس بات سے بھری پڑی ہیں کہ روز محشر یا قیامت کی بڑی نشانیوں میں سے ایک اس جھیل کا خشک ہونا بھی ہے۔متعدد روایتوں سے پتہ چلتا ہے کہ بحیرہ طبریہ کا خشک ہوجانا خروج دجال کی ایک علامت ہے،جبکہ غیر مصدقہ ذرائع کے مطابق کہا جاتا ہے کہ سرائیل طبریہ جھیل میں پانی کی سطح بتدریج کم ہونے کی وجہ سے اس میں ایک جزیرہ نمودار ہو گیا۔ مذہب اور تاریخ کی کتابیں اس بات سے بھری پڑی ہیں کہ روز محشر یا قیامت کی بڑی نشانیوں میں سے ایک اس جھیل کا خشک ہونا بھی ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم بھی اس بابت فرما چکے ہیں۔ اسرائیل میں واقع طبریہ جھیل کے خشک ہوجانے کا تذکرہ علامات قیامت والی حدیث میں ہے:
صعِد رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم المِنبَرَ فحمِد اللهَ وأثنى عليه ثمَّ قال : ( أُنذِرُكم الدَّجَّالَ فإنَّه لم يكُنْ نَبيٌّ قبْلي إلَّا وقد أنذَره أمَّتَه وهو كائنٌ فيكم أيَّتُها الأُمَّةُ إنَّه لا نَبيَّ بعدي ولا أُمَّةَ بعدَكم ألَا إنَّ تميمًا الدَّارِيَّ أخبَرني أنَّ ابنَ عمٍّ له وأصحابَه ركِبوا بحرَ الشَّامِ فانتهَوْا إلى جزيرةٍ مِن جزائرِه فإذا هم بدَهْماءَ تجُرُّ شعَرَها قالوا : ما أنتِ ؟ قالتِ : الجسَّاسةُ أو الجاسِسَةُ - قالوا : أخبِرينا قالت : ما أنا بمُخبِرَتِكم عن شيءٍ ولا سائلتِكم عنه ولكنِ ائتوا الدَّيْرَ فإنَّ فيه رجُلًا بالأشواقِ إلى لقائِكم فأَتَوُا الدَّيْرَ فإذا هم برجُلٍ ممسوحِ العَيْنِ مُوثَقٍ في الحديدِ إلى ساريةٍ فقال : مِن أين أنتم ومَن أنتم ؟ قالوا : مِن أهلِ الشَّامِ قال : فمَن أنتم ؟ قالوا : نحنُ العرَبُ قال : فما فعَلَتِ العرَبُ ؟ قالوا : خرَج فيهم نَبيٌّ بأرضِ تَيْماءَ قال : فما فعَل النَّاسُ ؟ قالوا : فيهم مَن صدَّقه وفيهم مَن كذَّبه قال : أمَا إنَّهم إنْ يُصَدِّقوه ويتَّبِعوه خيرٌ لهم لو كانوا يعلَمونَ ثمَّ قال : ما بيوتُكم ؟ قالوا : مِن شَعَرٍ وصوفٍ تغزِلُه نساؤُنا قال : فضرَب بيدِه على فخِذِه ثمَّ قال : هيهاتَ ثمَّ قال : ما فعَلَتْ بُحَيرةُ طَبَريَّةَ ؟ قالوا : تدَفَّقُ جوانِبُها يُصدِرُ مَن أتاها فضرَب بيدِه على فخِذِه ثمَّ قال : هيهاتَ ثمَّ قال : ما فعَلَتْ عَيْنُ زُغَرَ ؟ قالوا : تدَفَّقُ جوانِبُها يُصدِرُ مَن أتاها قال : فضرَب بيدِه على فخِذِه ثمَّ قال : هيهاتَ ثمَّ قال : ما فعَل نخلُ بَيْسانَ ؟ قالوا : يُؤتي جَناه في كلِّ عامٍ قال : فضرَب بيدِه على فخِذِه ثمَّ قال : هيهاتَ ثمَّ قال : أمَا إنِّي لو قد حُلِلْتُ مِن وَثاقي هذا لم يَبْقَ مَنْهَلٌ إلَّا وَطِئْتُه إلَّا مكَّةَ وطَيْبةَ فإنَّه ليس لي عليهما سبيلٌ ) فقال رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم : ( هذه طَيْبةُ حرَّمْتُها كما حرَّم إبراهيمُ مكَّةَ والَّذي نفسي بيدِه ما فيها نَقْبٌ في سهلٍ ولا جَبلٍ إلَّا وعليه ملَكانِ شاهرَا السَّيفِ يمنَعانِ الدَّجَّالَ إلى يومِ القيامةِ )الراوي: فاطمة بنت قيس تقول المحدث: ابن حبان - المصدر: صحيح ابن حبان - الصفحة أو الرقم: 6788خلاصة حكم المحدث: أخرجه في صحيحه
.........تمیم سمندر کے جہاز میں ایک جزیرے کے کنارے جا لگے۔ پس وہ جزیرے میں داخل ہو گئے وہاں ان کو ایک جانور ملا جو جاسوس تھا۔ وہ ایک بڑے قد کے آدمی کے پاس لے گیا جس کے دونوں ہاتھ گردن کے ساتھ بندھے ہوئے، دونوں زانوں سے ٹخنوں تک لوہے سے جکڑا ہوا تھا۔ اس نے پوچھا تم کون ہو؟ لوگوں نے کہا کہ ہم عرب ہیں ....... اس نے کہا کہ مجھے طبریہ کے بارے میں بتلاؤ۔ کہ اس میں پانی ہے؟ لوگوں نے کہا کہ اس میں بہت پانی ہے۔ اس نے کہا کہ البتہ اس کا پانی عنقریب ختم ہو جائے گا۔ میں تم سے اپنا حال کہتا ہوں کہ میں مسیح ہوں .......
“
نواس بن سمعان نے رسول اکرمؐ سے حدیث روایت کی ہے جس سے پچھلی حدیث کی تائید ہوتی ہے :
.............فيمر أوائلهم على بحيرة طبرية فيشربون ما فيها ويمر آخرهم ويقول لقد كان بهذه مرة ماء۔.............
” ............ اللہ یاجوج ماجوج کو بیدار کر دے گا اور وہ ہر بلندی سے نکل کر پھیل جائیں گے۔ ان کا ہراول دستہ بحیرۂ طبریہ پر سے گزرے گا تو اس کا سارا پانی پی جائے گا اور ان کا پچھلا دستہ وہاں سے گزرے گا تو کہے گا یقیناً یہاں پانی ہوا کرتا تھا ............
بعض روایتوں میں وارد ہے کہ اللہ تعالی یاجوج ماجوج کو ظاہر کرے گا جو دوڑتے ہوئے تمام زمین میں آن کی آن میں پھیل جائیں گے، ان کی تعداد اتنی زیادہ ہوگی کہ جب ان کی پہلی جماعت 'بحیرہ طبریہ' سے گزرے گی تو اس کا سارا پانی پی جائے گی۔ بحیرہ طبریہ جہاں سے اسرائیل اپنے لیے پانی حاصل کرتا ہے خشک ہونے والا ہے اور خوفناک گڑھوں کی وجہ سے اب لوط ؑ کی قوم کو عبرتناک عذاب سے دوچار کیے جانے کے نتیجے میں وجود میں آنے والا سمندر ’بحیرئہ مردار‘ یا ڈیڈ سی بہت تیزی سے خشک ہو رہا ہے اس کی سطح آب میں بھی غیر معمولی کمی واقع ہو رہی ہے ماہرین کا خیال ہے کہ بحیرئہ مردار 2050ء سے بہت پہلے اپنا وجود کھو بیٹھے گاان گڑھوں کی تعداد 1990ء میں صرف 40 تھی، تاہم اب صرف مقبوضہ فلسطین کی جانب والے ساحل پر 3 سو گڑھے بن چکے ہیں، جس سے اسرائیل کو سخت پریشانی لاحق ہے، اس کی ہر ممکن کوشش ہے کہ اس کے سمندر خشک نہ ہوں۔ اس لیے نہر سویز سے ایک رابطہ نہر بحیرئہ مردار تک کھودی جا رہی ہے۔ واضح رہے کہ بحیرئہ احمر، بحیرہ مردار سے 400 میٹر اونچا ہے، رابطہ نہر کے علاوہ بحیرئہ احمر یا بحیرہ قلزم کو بحیرہ مردار کے ساتھ پائپ لائن کے ذریعے جوڑنے کا منصوبہ ہے۔ اس منصوبے کو آر ایس ڈی ایس سی منصوبہ کہتے ہیں، اس منصوبہ پر اربوں ڈالر خرچ ہوں گے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ بحیرئہ مردار ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے تیزی سے خشک ہو رہا ہے۔
یہ جھیل اس سے قبل بھی تاریخ میں خشک ہوچکی ہے، تاہم اس کا خشک ہونا تاریخی اہمیت کے حامل کسی واقعہ کا پیش خیمہ رہی ہے جیساکہ آپﷺ کی ولادت کے عجیب واقعات میں یہ واقعات بھی روایت کیے گئے ہیں کہ آپﷺ کی ولادت کے وقت کسریٰ کے محل میں زلزلہ آیا اور اس کے چودہ کنگرے گر پڑے اور بحیرہ طبریہ فوراً خشک ہو گیا۔ اور فارس کا آتش کدہ بجھ گیا جو ایک ہزار سال سے مستقل روشن تھا اور کبھی نہ بجھتا تھا
کیا یہ سب سے زیادہ گرم سال ہوگا؟
تل ابیب یونیورسٹی کے پروفیسر کولن پرائس نے بھی شانوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے کہا ہے کہ صنعتی کاروبار، گیس کا اخراج ، توانائی کے شعبے ، بجلی گھر اور بے تحاشا گاڑیوں کے ذریعے گرین ہاؤس گیس میں بڑھوتری (اضافہ) ہورہاہے ، جو نہ صرف پوری زمین کے لئے خطرناک ہےبلکہ ان وجوہات کی بناء پر ماہرین نے اندازہ لگایا ہے کہ سال 2020 اسرائیل کی تاریخ کا سب سے گرم سال رہے گا۔
درجہ حرارت کا ڈیٹا کیا ہے؟
اگر اسرائیلی محکمہ موسمیات کی پیشگوئی کو مانیں توآئندہ چند روز میں گرمی کی شدت سے ملک میں تباہی مچ سکتی ہے۔ اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیل کے ساحل کے اطراف ایک پورے ہفتے میں درجہ حرارت 38 ° سی سے زیادہ رہا یہ پہلی بار ہے۔ ہیٹ ویو کا اندازہ ہے کہ بحیرہ مردار کے قریب ایین گیڈی میں درجہ حرارت 48 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ سکتا ہے جبکہ طبرس اور ایلاٹ میں 45 ° سی تک درجہ حرارت ہوسکتا ہے۔اس کے علاوہ ، برشیوا میں درجہ حرارت 43 ° سی تک جانے کا امکان ہے جبکہ تل ابیب میں یہ درجہ حرارت 42 ° سی اور یروشلم میں 38 ° سی تک پہنچنے کی توقع ہے۔
دنیا میں صحرا بن جانے کا خطرہ
گذشتہ سال ہندوستان نے زمینوں کے صحراؤں کے بڑھتے ہوئے خطرے پر عالمی کانفرنس کی تھی، تب یہ انکشاف ہوا کہ راجستھان ، مدھیہ پردیش اور مہاراشٹرا جیسی ریاستوں کی مساوی اراضی ، بھارت کی 30 فیصد زمین صحرا بن چکی ہے۔جنگلات کی کٹائی ، ضرورت سے زیادہ پیداوار ، مٹی کا کٹاؤ اور نم زمین کا وائلڈ استحصال جیسی وجوہات کی وجہ سے یہ خطرہ پیدا ہوا ہے۔بھارت کے علاوہ افریقہ اور امریکہ کے بہت سے علاقوں میں بھی اس قسم کے خطرات دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ اقوام متحدہ وقتا فوقتا اس سلسلے میں رپورٹس شائع کرتا رہا ہے۔پچھلے سال ، ایمیزون کے جنگلات کی آگ بھی گلوبل وارمنگ سے منسلک تھی۔مجموعی طور پر یہ ایک بہت بڑا خطرہ ہے جس کے بارے میں ماہرین مستقل انتباہات دیتے رہتے ہیں۔

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں