اکابر علماء کرام اور ذمہ داران مساجد کی خدمت میں کچھ تجاویز!
بندہ محمّد فرقان عفی عنہ(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)
کرونا وائرس کی وجہ سے پوری دنیا کشمکش کے عالم میں مبتلا ہے خصوصاً وطن عزیز ہندوستان کے حالات بھی دن بہ دن خراب ہوتے جارہے ہیں اور ہماری ریاستِ کرناٹک بھی اس وبا کا بڑی تیزی سے شکار ہوتی جارہی ہے- اب تک کرناٹک میں تقریباً 27 سے زائد لوگ اس وائرس کا شکار ہوچکے ہیں، جبکہ ایک کی موت بھی واقع ہوچکی ہے- پوری دنیا کے سائینسدان اس وائرس کا علاج تلاش کرنے میں دن رات محنت کررہے ہیں لیکن اب تک کورونا وائرس کا کوئی خاص تصدیق شدہ علاج یا دوا نہیں ہے البتہ چند احتیاطی تدابیر بتائی جاتی ہیں- حکومت کی طرف سے مختلف اقدامات کا اعلان بھی کیا جارہا ہے- ریاست کی حکومت نے 31/ مارچ 2020ء تک مکمل لاک ڈاون کا بھی اعلان کردیا ہے، جس میں پبلک ٹرانسپورٹ، ٹرینوں، اسکول کالج، بازار، شاپنگ مارکیٹ وغیرہ اور ریاستی سرحدیں سب کچھ بند رہیں گیں- اس کے علاوہ مذہبی عبادت گاہوں کو بھی بند کرنے کی بات رونما ہورہی تھی لیکن کچھ شرائط اور احتیاطی تدابیر کے ساتھ اب تک مساجد میں نمازیں پڑھی جارہی تھیں- مگر اب ریاستی حکومت نے تمام نمازوں کو معطل کرنے اور مساجد کو مکمل بند کرنے کا حکم صادر کردیا ہے- ریاستی حکومت کا کرونا وائرس کے پیش نظر مساجد بند کرنے کے حکم کو سنجیدگی سے لینے اور اس پر غور و فکر کرکے اکابر علماء اور ریاست کے ذمہ داران مساجد کو چاہئے کہ مسجد کو غیر آباد یعنی باجماعت نماز سے محروم ہونے سے بچانے کیلئے کوئی ایسی حکمت عملی اختیار کریں، جس سے قانون کے پاسداری بھی ہو اور مساجد بھی آباد رہیں۔
مذکورہ حالات کے پیش نظر اکابرین امت بالخصوص دارالعلوم دیوبند کے مہتمم بقیۃ السلف حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی مدظلہ، فقیہ العصر حضرت مولانا مفتی خالد سیف اللہ رحمانی صاحب مدظلہ نے نظام مساجد کے سلسلے میں ضروری تجاویز پیش کی ہیں- اس کے علاوہ پچھلے دنوں مہاراشٹرا کے مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی عزیزالرحمن صاحب فتحپوری مدظلہ نے ایک فتویٰ بھی جاری کیا ہے- جس کی تائید کئی مؤقر مفتیان عظام نے کی ہے- فتوے اور اپیل دونوں کا خلاصہ یہ ہے کہ موجودہ حالات میں بہتر یہ ہے کہ مسجدوں میں اذان ہوتی رہے اور مسجد میں مقیم امام، موذن اور دیگر عملہ مکمل احتیاطی تدابیر کے ساتھ باجماعت نماز ادا کرتے رہیں تاکہ مسجد آباد رہے- اس کے علاوہ محلے کے دیگر افراد حالات درست ہونے تک گھروں میں نمازیں ادا کریں- جن مساجد میں مستقل عملہ نہیں ہے وہاں محلے کے چند صحت مند نوجوان اعتکاف کے لئے بیٹھ جائیں اور مسجد کو اذان و نماز باجماعت کے ذریعے آباد رکھیں- اس کے علاوہ نماز جمعہ کے سلسلے میں بھی مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ نے یہی تجویز پیش کی ہے- نیز نمازوں کے بعد قرآن و حدیث کا درس اور جمعہ سے پہلے اردو بیان کو فل الوقت موقف کرنے نیز توبہ و استغفار، صدقات و خیرات اور دعاؤں کا کثرت کے ساتھ اہتمام کرنے کی مفتیان عظام نے اپیل بھی کی ہے- مذکورہ تجاویز اور فتوے کی مختلف مفتیان اکرام کے علاوہ مفکر اسلام حضرت مولانا خلیل الرحمٰن سجاد صاحب نعمانی مدظلہ نے بھی تائید کا اعلان کیا ہے- اسی طرح کی تجاویز جماعت اسلامی ہند کے شعبہ شریعہ کونسل کے صدر مولانا سید جلال الدین صاحب عمری مدظلہ نے بھی پیش کی ہے- لہٰذا ضرورت ہیکہ ریاست کے مؤقر علماء اور ذمہ داران مساجد مذکورہ تجاویز کو مدنظر رکھتے ہوئے جلد از جلد فیصلہ لیں، اس سے پہلے کہ حکومت کی جانب سے نمازوں کو معطل کرنے اور مساجد کو مکمل بند کرنے کے حکم کو عملی جامہ پہنا دیا جائے یا حکومت کی جانب سے جبراً اس پر عمل کرنے کیلئے ذمہ داران مساجد کو مجبور کیا جائے!اللہ تبارک و تعالیٰ اس خطرناک وبا اور اس طرح کی تمام بیماریوں سے پورے عالم بالخصوص امت مسلمہ کی حفاظت فرمائے- آمین

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں