تازہ ترین

منگل، 11 فروری، 2020

خواتین شاہین باغ تمہیں سلام

حافظ عقیل احمد خان، دھن گھٹا سنت کبیر نگر

ہندوستان سخت قسم کی بے چینی اور بد امنی میں مبتلا نظر آرھا ھے ، ہر طرف خوف و ہراس کا ماحول قائم ھے ، تخت حکومت پر ان فاشٹ عناصر کا قبضہ ھے ، جو ایک خاص نظریہ کے حامل ھیں ، اور ایک خاص پالیسی کے تحت اس ملک کو زعفرانی رنگ میں رنگنا اور یہاں کی مشترکہ گنگا جمنی تہذیب کو سبوتاز ، کرنا چاہتے ھیں ، ان عنا صر کو یہاں کی قدیمی اور مثالی فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور ہماری آبائی وراثت اور روحانی اقدار سے سخت نفرت ھے ، حال ہی میں منظور ہونے والے شہریت ترمیم قانون اور این آر سی کا مدا، ایسے ھی ایشوز ہیں، جس کہ وجہ سے ہندوستان کہ عوام ، بالخصوص ، خواتین جامعہ و شاہین باغ جو   اس سخت ترین سردی میں  بلا تفریق مذہب اس قانون کے خلاف ڈٹی ہوئی ہیں ،میں ان کے حوصلوں کو سلام کرتا ھوں ان بیٹیوں نے محسوس کیا کہ اگر سی اے اے (CAA) قانون جوجبراً نافذ اور مسلط کر دیا گیا، تو پانچ لاکھ آسام کے مسلمانوں کا مستقبل تباہ ہو جائے گا، حراستی کیمپ میں جو نوجوان لڑکیاں ہوں گی ان کے ساتھ کیسا سلوک کیا جائے گا ان کی عزتوں کو کیسے تار تار کیا جائے گا، انہوں،،، آہ و فریاد پر لبیک کون کہے گا، بروقت ان کی فریاد رسی کو کون پہنچے گا، سب پر ان کی عقابی نگاہ بنی ہوئی ہے آج ،،،، کشمیر سے لیکر کنیا کماری تک ، مشرق سے لیکر مغرب تک ، شمال سے لیکر جنوب تک، میرا ملک جل رھا ھے۔

میرے نوجوان جل رھے ھیں ، میرے نوجوانوں پر آنسو گیس اور گولیوں کی بوچھار کی جارھی ھے ، میری نوجوان بچیوں پر یلغار ہورھی ھے ، سڑکیں ان بچیوں کے خون سے لت پت ھیں  ، آج انھیں دیکھ کر مجاہدین آزادی کی جھلکیاں نظر آرھی ھیں، شیخ الہند کی جھلکیاں نظر آرھی ھیں، حاجی امداد اللہ کی جھلکیاں نظر آرھی ھیں ، اور وہ  علماء جنھوں نے اپنے گلوں کو پھانسی کے پھندوں تک پہچا کر اس ملک کو آزاد کریاتھا ، مجھے انکا خون ، جامعہ ملیہ اور شاہین باغ کی بیٹیوں میں نظر آ رھا ھے، آج ، کم از کم ان کے کردار و عمل سے یہ بات تو صاف ہو گئی ، کہ، ان نوجوان بچیوں نے ، ان بیٹیوں نے ، ہندوستان کے ہر ایک رہنے والے کو پوری مسلمان ملت اسلامیہ کو  یہ باور کرا دیا کہ بندوقوں کے سائے میں ، تلواروں کے نیچے   ، اور توپ کے گولوں کے درمیان ، خوف و حراست کے سخت سے سخت ، حلات میں ہم یہ اعلان کرتے ھیں،اے باطل حکمرانوں سنو!!!!! ہم ہندوستانی ھیں ، ہندوستانی بن کر زندہ رہنگے ، اور ہندوستانی بن کر مرینگے، قوم کی یہ دلیر حوصلہ مند بیٹیاں جن کی اولوالعزمی کے سامنے مسلح نقاب پوشوں، اوباشوں، فسادیوں کے حوصلے پست ہو گئے ہیں،جی ہاں وہی بیٹیاں جن کے بلند عزائم اور جرات مندی کے آگے تاناشاہ حکومت  کا غرور پیوند زمیں ہو گیا،وہی بیٹیاں سخت ترین سردی کی تکلیفوں کو برداشت کرتی ہوئی آج بھی حکومت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ پیغام دے رہی ہیں کہ   
                                  
ادھر آ ستم گر ہنر آزمائیں  
تو تیر آزما ہم جگر آزمائیں۔

آج شاہین باغ  جامعہ اور جے این یو،  کی بیٹیوں میں جو جوش وجذبہ اور جرات وہمت نظر آرہی ہے،میں انکے حوصلوں کو سلام کرتا ھوں ،،،، اس نے پوری دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔آ ج پورا ملک ان کو داد وتحسین سے نواز رہا ہے ، ان کی حوصلہ ا فزائی کررہاہے ،اور ان کی طرف پر امید نظروں سے دیکھ بھی رہاہے،مگر ساتھ ہی یہ سوال بھی کررہا ہے کہ یہ خوش آئند انقلاب ان میں کہاں سے آیا؟ کیسے وہ ظالم پولیس کی لاٹھیوں اور گو لیوں کے سامنے آئرن گرل بن کر ڈٹ گئیں ،کس نے ان کو یہ حوصلہ دیا؟ کہاں سے ان میں یہ تحریک پیدا ہوئی ؟ان کی جرات وہمت کا سر چشمہ کیا ہے؟وہ صنف نازک جن کو ہم نے اب تک چراغ خانہ سمجھ رکھا تھاوہ شعلہ جوالہ بن کر آج خرمن باطل پر بجلیاںگرارہی ہیں۔سلام ہے ان شاہین صفت دوشیزائوں کو، بچیوں کو، ادھیڑ عمر کی خواتین کو جن کی نسائی آواز سے ایوان اقتدار میں کہرام برپا ہے۔ حکومت خوفزدہ ہوکر انہیں محاذ سے ہٹانے کی ہر کوشش کررہی ہیں؛ لیکن وہ اپنے مطالبات پر ڈٹی ہوئی ہیں اور سیاہ قانون کی واپسی تک ڈٹے رہنے کا اعلان کرچکی ہیں۔ ان کی تحریک میں اب پورا ملک شامل ہوگیا ہے۔شاہین باغ سے لے کر سبزی باغ تک، الہ آباد سے لے کر پونہ تک اور کولکاتہ سے لے کر بنگلورو تک دیوبند سے لے کر بریلی تک کی باہمت خواتین اپنے اپنے علاقے کو شاہین باغ بناچکی ہیں اور فاشسٹ حکومت کے خلاف کھل کر آکھڑی ہوئی ہیں۔

آفرین ، آفرین، میں آپ کی عظمتوں کو سلوٹ کرتا ھوں ، میں آپ کے حوصلوں اور جزبۂ حریت کو سلام کرتا ھوں ،،، میں آپ کو سلام کرتا ھوں کہ آپ نے قیادت کا انتظار نھیں کیا ، بلکہ آپ نے اپنی سوئی ہوئی قیادت کو اپنے کردار و عمل سے جگایا ھے ، اور گویا آپ نے قیادت پر شب خون مار کربتایا ھے کہ اب ہم ہندوستان میں مزید اسلام و آئین کے ساتھ کھلواڑ نھیں ہونے دینگے،کیوں،میں سوچ رھا تھا کہ یہ جزبۂ جنون کہاں سے آیا ، مجھے تاریخ کے حوالوں سے،،،، مجھے تاریخ کے صفحات سے ، علم ہوا کہ ہماری نوجوان نسلوں مین جو جزبۂ حریت ، اور آج ہماری معصوم ،معصوم ، اور نرم نازک کلیاں ، اور ہماری بچیاں ، لاٹھوں سے جن کے سروں کا استقبال کیا جا رھا ھے ، آخر ، یہ حریت کا خون کہاں سے آیا ، تو مجھے مجاہدین آزادی یاد آگئے، مجھے سیدنا ابوبکر صدیق کا وہ جملہ یاد آگیا ، کہ جو آپ نے ایسے نازک ترین حالات میں فرمایا تھا ، اینقص الدین وانا حی،کیا میرے رہتے ہوئے دین کم ھوسکتا ھے، کیا میرے رہتے ھوئے اسلامی عقائد پر شب خون مارا جاسکتا ھے، کیا میرے رہتے ھوئے اسلامی اعمال کو کم کیا جاسکتا ھے، کیا میرے رہتے ھوئے اسلام کا دروازہ بند کیا جاسکتا ھے، کیا اسلام کے وجود کو خاکستر کیا جاسکتا ھے،یہ بات سیدنا ابوبکر صدیق نے ، 1400 سال پہلے کہا لیکن میں اپنی طرف سے  سلام اور سلوٹ پیش کرتا ھوں تمام خواتین  شاہین باغ و جامعہ کو،  کہتا ھوں کہ آپ کی رگوں میں وہی غیرت صدیقی کا خون دوڑ رہاھے ، وہی غیرت صدیقی کے خون نے آپ کو اس باطل کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ بخشا ھےمیں آپ کی خدمت میں  سلام و تشکر پیش کرتا ھوں ، کہ آپ نے اپنے کردار و عمل سے اور اپنے اس پر امن مظاہروں سے ، سوتی ہوئی قوموں کو جگایا ھے ، دشمنوں کے دلو ں کو خوف سے پر کیاھے

 منتشر قوموں کی قوت کو یکجا کیا ھے ، اہل اقتدار کے رونگٹے کو کھڑا کیا ھے ، دشمنوں کی طاقت اور اسکے افراد کو توڑا ھے ،ہم دور اول سے ہی اگر کتب تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو کہیں کوئی ایسی تحریک نہیں ملے گی جس میں خواتین کا ایک عظیم کردار نہ رہا ہو، خواتین اسلام ہمیشہ سے ہی مردوں کے شانہ بشانہ ( دعوت دین، اشاعت اسلام، میدان کار زار میں ) کھڑی ملیں گی،چنانچہ اسلام میں سب سے بڑی فضیلت کے حامل وہ صحابہ کرام ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا مثلاً سیدنا حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے پاس فضائل میں یہ سب سے بڑی فضیلت ہے؛ لیکن اس میں بھی تین صحابیات شریک ہیں، جس میں حضرت خدیجہؓ ، حضرت سمیہؓ ، حضرت ام ایمن ؓ ہیں .تقدم فی الاسلام کے بعد سب سے بڑا شرف ہجرت ہے ، اس میں صحابہ کرام کے ساتھ ہجرت کرنے والی تمام مہاجراتِ صحابیات رضی اللہ عنھن شریک ہیں، ابتدائے اسلام میں دخول اسلام کے بعد سب سے بڑا کارمانہ اظہار اسلام کا تھا، چنانچہ اظہارِ اسلام کرنے والے اولین صحابہ کرام میں ایک صحابیہ حضرت سمیہ ؓ بھی شامل ہیں، اسلام میں جہاد کا عمل بڑی فضیلت کا حامل ہے، اس میں بھی ہماری خواتین اسلام کسی صحابہ سے پیچھے نہیں ہیں ، چنانچہ جنگ یرموک کے موقع پر جب صحابہ اکرام رضی اللہ عنھم اپنے قدم پیچھے ہٹانے لگے تو ایک صحابیہ سودأ بنت عاصمؓ ایک ٹیلے پر چڑھ گئیں اور دوسری عورتوں کو مخاطب کر کے کہنے لگیں ’’ارے! تم کب تک اپنے خیموں میں بیٹھی رہو گی، تمہارے خاوند اور تمہارے مرد تو پیچھے ہٹ رہے ہیں ، یہ بات سنتے ہی سب عورتیں خیموں سے باہر نکل آئیں، اس وقت لبنی بنت جریرؓ کہنے لگیں: ”اے عرب کی عورتو! تم اپنے اپنے خاوندوں کے ساتھ کھڑی ہو جاؤ ، اور اپنے معصوم بیٹوں کو اپنے ہاتھوں میں اٹھا لو اور اپنے خاوندوں سے کہو کہ ہمیں اور ہمارے معصوم بچوں کو عجمی کافروں کے حوالے کر کے تم کہاں جا رہے ہو؟ 

”ام حکیم اور خولہ رضی اللہ عنھا مسلسل لڑ رہی تھیں اور کہہ رہی تھیں: ”اے عربی ماؤں کے بہادر بیٹوں! تم کافروں سے بھاگتے ہو آگے آو اور ان پر حملہ کرو، چنانچہ مسلمان عورتوں نے عجیب بہادری کا مظاہرہ کیا اور اپنے معصوم بیٹوں کو ہاتھوں میں اٹھالیا اور اپنے خاوندوں کو دکھا کر کہنے لگیں کہ ہمیں اور ہمارے ان معصوم بچوں کو تم کافروں کے حوالے کر کے کہاں جاؤ گے؟ جب مسلمانوں نے اپنے معصوم بیٹوں کو دیکھا تو واپس پلٹے اور انہوں نے رومیوں پر اس قدر سختی سے حملہ کیا کہ رومیوں کو سنبھلنے کا موقع نہ ملا، اور یوں اللہ تعالیٰ نے ان کو جنگ یرموک میں فتح عطا فرما دی، کتب تاریخ کے مورخین نے لکھا ہے کہ مسلمان عورتوں کا ایمان و یقین پر مشتمل یہ ایسا کارنامہ تھا کہ تاریخ ایسی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے، آج پھر ہماری شاہین باغ کی شاہینیوں نے جنگ یرموک کے موقع پر خواتین کا جو کردار تھا اس کو تازہ کردیا، اسی طرح ماضی قریب میں بھارت کی آزادی میں قربانیاں پیش کرنے والی (رانی لکشمی بائی ، رضیہ سلطانہ) جیسی بہادر خواتین کی یادوں کو تازہ کردیاـ میری بہنوں آنے والی ہماری نسلیں اپنی ان ماؤں اور بہنوں پر تا دم حیات فخر کریں گی، اور آپ کی بہادری کے واقعات کو اپنی نسل در نسل میں منتقل کریں گی ـ آپ کے جذبہ ایمانی اور اپنے وطن عزیز کی محبت پر اپنی تمام تر مصروفیات کو چھوڑ کر دہلی کی اس سخت ترین سردی میں سڑکوں پر بیٹھنا یہ کسی مجاہدہ سے کم نہیں ، اس جذبہ ایمانی کو بصد احترام سلام پیش کرتا ہوں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad