ڈاکٹر محمد عمار خان
آج طلبہ جامعہ جامعہ سے پارلیمنٹ تک ایک پر امن مارچ نکالنے کی کوشش کر رہے تھے جنکے ہاتھوں میں لاٹھی ڈنڈے چاقو تلوار نہیں بلکہ اٙئین ھند تھا جنکے پیشانی پر بھارت کا جھنڈا تھا جنکے چہروں پر بھارت کا نقشہ تھا جنکے سینوں پر گاندھی امبیڈکر نہرو آزاد نیتاجی کی تصویریں تھی آج طلبہ کو لہو لہان صرف اسلئے کیا گیا کہ وہ امبیڈکر کے بنائے ہوئے آئین کی حفاظت کرنا چھوڑ دیں وہ گاندھی جی کی وراثت کو چھوڑ دیں وہ مولا نا آزاد کی قومی یکجہتی سے کنارہ کشی کر لیں وہ نہر کے وعدو کو بھول جا ئیں وہ بسمل اور اشفاق کے بھارت کو بھول جائے وہ گنگا جمنی تہذیب کو اپنے ہاتھوں دفن کر دیں وہ برسوں سے مدفون فکر جناح فکر ساورکر کو از سر نو زندہ کریں شاید حکومت ھند اور انکے آلہ کاروں کو جامعہ کی تاریخ کو پڑہنے کا موقع نہ ملا ہو اور ضرورت بھی کیا۔تاریخ تو انہیں محفوظ کرتی جنکے کارنامے جنکی جماعت تاریخ سے خالی انہیں اس سے کیا دلچسپی کہ جامعہ کا جنگ آزادی میں کیا کردار رہا ہے ہندوستان کی تاریخ میں دو ادارہ ایسے ہیں۔
جوتحریک آزادی کی کوکھ سے جنم پائی ہےایک جامعہ ملیہ اسلامیہ اور دوسرا دارالعلوم دیوبند کہ جسکے بانیوں نے خود جنگ آزادی کی لڑائی انگریزوں سے لڑی اور آج جامعہ کے فرزندوں نے یہ ثابت کردیا کہ انگریزوں سے ہمارے آباو اجداد لڑے تھے اور دیسی انگریزوں سے ہم ہی لڑینگے یو تو پورا ہندوستان اس ظالمانہ غیر آئنی قانون کے چکی میں بلا تفریق مذھب پس رہا اور ہمارا جسد ملی لہو لہان ہورہا ہےتاہم آج جو جامعہ کے لاڈلوں کی خون آلود تصویریں سوشل میڈیا پر گردش کر ہی ہیں وہ ہندوستانی جمہوریت پر ایک بد نما داغ لگاتی ہیں جہا ں پر امن احتجاج کو ظلم و تشدد سے روکا جاتا ہے آج جامعہ کی تصویر دنیا کے ہر گو شہ. گوشہ میں اپنے اوپر ہونے والے ظالمانہ تشدد کو چیخ چیخ کر بیان کررہی ہے آج حکومت طاقت کے نشہ میں چور اس ظالمانہ حرکت کو خاموشی سے دیکھ رہی ہے اور ملک کی اپوزیشن پارٹیاں ٹوئٹر اور فیسبک پر بیٹھ کر گھو ر نند ا کررہی ہیں جامعہ کے شیروں تمہاری بہادری کو سلام تمہارا یہ ضرور رنگ لائگا جس ملک کے پاس تمہارے جیسے اولاد اسے دنیا کی کو ئی طاقت زیر نہیں کرسکتی۔
جامعہ زندہ باد دستور ہند زندہ باد
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں