از:احتشام الحق، مظاھری، کبیر نگری،
الحمدللہ ، رب العالمین ، الذی خلق العباد وحرم الظلم علی الاولین ، والآخرین، والصلاۃ الاسلام علی رسولہ الکریم ، امابعد، فقد قال اللہ تبار وتعالی فی القرآن الکریم، ان الذین فتنو المومنین والمومنات ثم لم یتوبو فلھم عذاب جہنم ولھم عذاب الحریق
میں یہ کس کے نام لکھوں جو اَلَم گزررھے ہیں
مِرے شہر جل رہے ہیں مِرے لوگ مر رہے ہیں
کبھی رحمتیں تھیں نازل اسی خِطَّئہ زمیں پر
وہی خِطَّئہ زمیں ہیں کہ عذاب اتر رہے ہیں
کوئی اورتو نہیں ھے پسِ خنجر آزمائی
ہمی قتل ہو رہے ہیں ہمیں قتل کر رہے ہیں
سامعین کرام!!!! ہندوستان کی پوری تاریخ ہندوستانی مسلمانوں کی قربانیوں انکی خدمات و احسانات سے بھری پڑی ھے ہندوستان کا خواہ وہ دور ھو جب مسلمان اس سر زمین کے حکمران تھے ،یا وہ دور ہو جب یہ ملک انگریزوں کی غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ھوا تھا ،تاریخ گواہ ھے کہ ہر دور میں مسلمانوں نے ہندوستان کے بجھتے چراغ کو روشن کیا ھے، ڈوبتی کشتی کو ساحل تک پہچایا ،،، ،، پھیلتے طوفانی موجوں اور نفرت و تعصب کے ابلتے شراروں کو ٹھنڈا کیا ھے ، ہندوستان کو حسین و جمیل بنانے اور دنیا میں اسکا نام روشن کرنے کےلئے اہم کردار ادا کیا ھے ، اور جب انسان نما درندے ، ظلم کے خوگر، اور انسانی خون کے پیاسے انگیزوں نے ، اس ملک پر اپنے پنجۂ استبداد جما دئے ، اور باشندگان ہند پر ظلم و ستم کا پہاڑ توڑا جانے لگا ، تو ایسے نازک اور پر خطر حالات میں مسلمانوں نے ہی آگ کے انگاروں میں جل کر توپوں کا نشانہ بن کر ، جیل کی کال کوٹھریوں میں رہ کر اور ہر طرح کا ظلم و ستم سہ کر ، ہندوستان کی حفاظت کا بیڑا اپنے کندھوں پر اٹھایا ، حریت کے باغ کو اپنے خون جگر سے سینچا ، اپنا لہو دے کر آزادی کی جنگ کو پروان چڑھایا ، اور ہر طرح کی قربانیوں کو دے کر اس ملک کو انگریزوں کے پنجۂ استبداد سے آزاد کریا،مگر افسوس صد افسوس،،،،،، آزادی کے بعد مسلمانوں کو اپنی سالہا سال ، قربانیوں کا جو صلہ ملا ھے وہ اس قدر درد ناک ھے کہ اسے زبان پر لاتے ھی خون کے آنسو ٹپک پڑتے ھیں، پاؤں تلے سے زمین کھسک جاتی ھے ، رونگٹے کھڑے ھوجاتے ھیں ، صرف 70 سال میں 50 ہزار سے زائد مسلم مخالف فسادات ہوچکے ھیں ، جن میں مسلمانوں کا قتل عام ہوا، عبادت گاہوں کو شہید کیا گیا، مسجدیں توڑی گئیں ، مسلم خواتین کی عصمتیں لوٹ لی گئیں، بستیوں کی بستیاں ، قبروں اور ویرانوں میں تبدیل کردی گئیں ، مسلمانوں کی دوکانیں کو چن چن کر نظر آتش کرگیا، کھربوں روپئے مالیت کی جائدادیں، اور آثاثے لوٹ لئے گئے ، ان کے کاروبار کو اس طرح تباہ و بربا د کردیا گیا ، کہ صاحب زر اور باعزت لوگ بھی بھیک مانگنے پر مجبور ہو گئے، بچے کھچے مسلمان جب سڑکوں پر نکل آئے تو انھیں پولس کی بربریت کا شکار ہونا پڑا، بے بس و بےکس مسلمانوں کو گولیوں کا نشانہ بنا کر ان کے سینوں کو چھلنی کردیا گیا ، شاہ راہیں شہیدوں کے خون سے لالہ زار ھوگئیں ، مسلمان بچوں جوان اور بوڑھوں کو گھروں میں قید کر کے بوریوں میں بند کرکے تیل چھڑک کر آگ لگا دیا گیا، 1988 میں بھاگلپور کے فساد میں مسلمانوں پر بجلیاں گرائی گئیں ، پورا ایک کنواں مسلمانوں کی لاشوں سے بھر دیا گیا ، گجرات 2002 کے قتل عام میں بے شمار مسلمان بھوئیوں اور بہنوں کی لاشوں پر گاجر اور مولی کی کھتی کردی گئی، ننھے ننھے معصوم بچوں کو مچھلیوں کی طرح تڑپتا ہوا دیکھ کر ، بھی ان پر رحم نھیں کیا گیا ، انھیں زندہ آگ کے انگاروں میں جھونک دیا گیا ،،،، اور کشمیری مسلمان پر مسلسل ظلم و بربریت کا جو پہاڑ توڑا جارہا ھے نوجوانوں کے سینہ کو چھلنی کیا جارھا ھے مسلمان بچیوں اور عورتوں کو اغوا کیا جارھا ھے ، اور انکو کال کوٹھری میں قید کر کے اسی ضربیں لگائی جاتی ھیں کہ تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی ۔
معصوم تڑپتے ھوئے بچوں کی وہ آہئں
گرماتی ہوئی روح کی وہ دل دوز کراہیں،
رہ رہ کے فلک کی طرف اٹھتی ھیں نگاہیں،
ہر اہل وطن ڈھوڈتا پھرتا ھیں پناہیں،،،،
عزیزان گرامی ، ہندوستان میں مسلمانوں پر ہمشہ بجلیا گرائی جاتی رھیں ان کا وجود ہمیشہ خطرے میں رہا ہے، آزادی کے بعد سے تقسیم کا درد جھیلنا اور پھر اس زخم کو ہرا رکھتے ہوئے مسلمانوں کو نشانہ بنا کر ان کے خلاف منصوبہ بند سازشین کرنا کوئی پوشیدہ امر نہیں_ خود سیکولر ازم کے حامیوں نے مسلم کش کو ترجیح دی،. تعلیم میں بیک فٹ پر ڈال دیا گیا، نوکری اور سرکاری محکموں سے دور پھینک دئے گئے، اور نوبت یہ آن پڑی کہ وقت کے حکمراں نے ہندوستان کو عالمی پلیٹ فارم پر پہچان دلانے والی مسلم قوم کو ایک دلت قوم سے بھی پیچھے کردیا،لیکن یہ تو ابتدا تھی اس کی انتہا CAA ,NRC, NPR کی صورت میں مسلمانوں کے سر وں پر تلوار بن کر لٹک رہی ہے، چشم فلک نے آزادی کے بعد ایسا نظارہ شاید ھی دیکھا ھو،طالبان علوم بنوت کے نوشگفتہ پھولوں،،،،،،، شاعر مشرق علامہ اقبال نے ایک سو سال قبل شکوہ کیا تھا کہ ’’برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر‘‘ لیکن افسوس کی بات ہے کہ امت مسلمہ کو آج بھی دنیا بھر میں جگہ جگہ ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے خواہ وہ بوسنیا سے ملنے والی مسلمانوں کی اجتماعی قبروں کی بات ہو جنھیں مسلح سربوں نے نہایت وحشیانہ طور پر موت کے گھاٹ اتار دیا ان میں شیر خوار بچے بھی شامل تھے یا میانمار (برما) میں بدھ مت کے پیروکاروں کے ہاتھوں پے در پے لقمۂ اجل بننے والے روہنگیا مسلمان , جی ہاں! یہی کہا گیا ہے اور یہی ہورہا ہے کہ برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر۔ یہ برق مسلمانوں پر کس جگہ نہیں گر رہی ہے کس خطہ کے مسلمان آزمائش اور ابتلا کا شکار نہیں۔ دنیا میں کس جگہ کے مسلمانوں کو جائے امان حاصل ہے۔ہر جگہ مسلمان تختہ مشق ہیں۔ ہر جگہ مسلمان نشانہ ستم ہیں۔ ہر جگہ مسلمانوں کو ہی تہہ تیغ کیا جارہا ہے۔ دنیا بھر کے کفار اور اغیار مسلمانوں پر چڑھ دوڑے ہیں۔ شام کا ذکر کریں تو وہاں دوسرے اپنی جگہ مسلمان ہی مسلمان کا دشمن بنا ہوا ہے۔ مسلمان بھی مسلمان کو مار رہا ہے۔ اندر سے فرقوں اور گروہوں میں بٹے ہوئے لوگ اور باہر سے وہاں کے حکمرانوں کے حامی اور دشمن۔آج پوری ملت کے مسلمانوں پر اتنے ناگفتہ بہ حالات کیوں ہیں ؟زوال امت کا اصل سبب کیاھے؟ اگر تاریخ سے سوال پوچھا جائے کہ قرآن مجید جیسی عظیم نعمت کے ہوتے ہوئے یہ امت کیوں رو بہ زوال ہے ؟ تو تاریخ ہمیں اس کا جواب دے گی کہ”انَّ اللّٰہَ لاَیُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوا مَا بِأنْفُسِہِمْ“۔ ”اللہ تعالی کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب کہ وہ خود( اپنے ارادے و اختیار سے )اپنے حالات و نفسیات نہ بدل لیں “۔سامعین کرام، یوں تو آج پوری دنیا کے مسلمان ظلم و جور کی چکی میں پس رہے ہیں اور زبان حال سے یہ فریاد الٰہی کر رہے ہیں :
رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پر
برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر
اس فریاد سے پہلے ہمیں خود بحیثیت ملت یہ جائزہ لینا چاہیے کہ اس طرح کے ناگفتہ بہ حالات ہماراساتھ کیوں نہیں چھوڑ رہے ہیں؛ حالاں کہ اللہ رب العزت کی سنت تو یہ رہی ہے۔ ”وَمَا کَانَ رَبُّکَ لِیُہْلِکَ القُریٰ بِظُلْمٍ وَأہْلُہَا مُصْلِحُون“o (القرآن)اس آیت کی روشنی میں ہمارا محاسبہ ہمارے سوئے ہوئے ضمیر کو بیدار کر ے گا کہ قرآن کی تعلیمات پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے اس طرح کے حالات ہمارا مقدر بن چکے ہیں ،لہٰذا سچے دل سے ہمیں پھر قرآن کے دامن میں پناہ ڈھونڈنی چاہیے ۔ اس کے بغیر اور کوئی علاج کارگر نہیں ہوسکتا ، آج ا س امت کی مثال اس پیاسے کی سی ہوگئی ہے، جس کے پڑوس میں میٹھا چشمہ بہہ رہا ہو؛ مگر وہ اس چشمے سے سیراب ہونے کے بجائے گندے پانی سے اپنا پیٹ بھرنا چاہتا ہے ۔اس موقع پر پیارے نبی کی اس وصیت کو ہمہ وقت یا درکھنے کی ضرورت ہے ”اِسْمَعُوا منّی تَعَیَّشُوا“ (میری باتیں غور سے سنو ، یہ باتیں غور و خوض سے سنوگے تو پھلتے پھولتے رہوگے )اور اسی موقع پر آپ نے بڑی دل سوزی سے فرمایا تھا ”تَرَکْتُ فِیْکُمْ أمْرَیْنِ مَا تَمَسَّکْتُمْ بِہِمَا لَنْ تَضلّوا کتابَ اللّٰہِ وَسُنَّتِی“عزیزان گرامی ،،،،، اسیر مالٹا،،، شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی نے مالٹا کی تنہائیوں میں جو غور و خوض کرکے اس بیمار ملت کے لیے دوا تجویز کی تھی اے کاش اس ملت نے اگر اس نصیحت پر عمل کیا ہوتا تو شاید آج حالات اتنے ناگفتہ بہ نہ ہوتے ، مفتی محمدشفیع عثمانی صاحب اس سلسلے میں شیخ الہند کی ترجمانی کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ” میں نے جہاں تک جیل کی تنہائیو ں میں اس پر غور کیا ہے کہ پوری دنیا میں مسلمان دینی اور دنیوی ہر حیثیت سے کیوں تباہ ہورہے ہیں تو اس کے دو سبب معلوم ہوئے ، ایک ان کا قرآن کو چھوڑ دینا اور دوسرا ان کے آپس کے اختلاف اور خانہ جنگی ، یہ بالکل سادہ سی بات ہے واقعی اگر قرآن پر کسی درجہ میں عمل کیا جاتا تو یہ خانہ جنگی یہاں تک نہ پہنچتی ۔آج سے چند سال پہلے مسلم محلوں سے گزرنے والا یہ لازماً محسوس کرلیتاتھا کہ یہ مسلم محلہ ہے اور اس علاقے اور محلے میں قرآن کی برکت سے الگ ہی قسم کی رونق ہوا کرتی تھی ۔ ” آج سے تیس چالیس سال پہلے مسلمانوں کے محلوں میں گذرتے ہوئے ہر گھر سے قرآن پڑھنے کی آواز تو آتی تھی یہ الگ بات ہے کہ لوگ اسے ٹھیک سے سمجھتے نہیں تھے، لیکن تلاوت تو بہرحال ہوتی تھی ، اب تو تلاوت بھی نہیں ہوتی آج مسلمانوں کو موجودہ حالات کے تناظر میں اور خاص طور پر جو ۲۰۱۹ ء کے معرکہ اور الیکشن کے نتائج کے بعد آئے ہوئے حالات کے پس منظر میں ان قرآنی فارمولے پر عمل کی سخت ضرورت ہے ۔ اور امت کو بتانے کی ضرورت ہے کہ تمہاری اس موجودہ مشکل کا حل سورئہ انفال میں بتا دیا گیا ہے ۔ اللہ تعالٰی ہم سب مسلمانوں کو ان قرآنی ہدایات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور مشکل حالات میں ان ربانی نسخہ پر عمل کی توفیق سے نوازے۔ آمین۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں